کس قدر کھلا تضاد ہے، ایک جانب تو کہا جاتا ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں اور دوسری جانب آج تک فوج مکمل طور پر سیاست میں ملوث ہے۔ ”صاف چھپتے بھی ہیں، سامنے آتے بھی نہیں“ تک معاملہ رہتا تو چلو کچھ دیوانے زبان بندی کے پابند رہتے مگر آج تو تمام پردے چاک ہو چکے ہیں اور فوج کھل کر سامنے آچکی ہے۔ ملک کے 70 فیصد وسائل پر قابض فوج کس طرح کسی ایسے سیاستدان کو الیکشن وقت پر کراکر سیاست میں آنے کی اجازت دے گی جو کہ جمہوری طریقہ سے حکومت بنائے اور پھر عوام کے ذریعہ فوج کے لئے زندگی تنگ کردے۔ فوج کی مراعات پر سوال اُٹھ جائے، فوج کی رئیل اسٹیٹ، فرٹیلائزر فیکٹریوں، ٹرانسپورٹ اور بارڈر پر ہونے والی اسمگلنگ پر جمہوری حکومت قدغن لگانے میں کامیاب ہو گئی تو پھر فوج کی گزشتہ 73 سالہ کوششوں پر یکدم پانی پھر جائے گا، سو فوج یہ کیونکر ہونے دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انوار الحق کاکڑ جو کہ فوج کے ہر حکم پر آمنا و صدقنا کہنے والے ہیں کو ملک کی باگ ڈور دے دی گئی ہے۔ عوام کو وہی پرانا چورن بیچنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کی تازہ مثال محترم وزیر اعظم کاکڑ کا حالیہ بیان ہے کہ جس میں ان کا کہنا ہے کہ بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی نہ بھی ہو تو الیکشن ہو گا یعنی الیکشن کیوں ہو رہا ہے؟ عوام کی رائے کے لئے اور عوام کی رائے کس طرح سو فیصد ہو سکتی ہے جب کہ ایک سیاسی جماعت جس کے حکمران نے جو کچھ غلط یا صحیح کیا ہو مگر اسے عوام کی حمایت تو حاصل ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ملک کی پوری عوام بے وقوف اور جاہل ہے اور امکان ہے کہ کہیں وہ غلطی سے غلط حکمرانوں کو نہ چن لے یعنی حکمرانوں کے غلط اور صحیح ہونے کا فیصلہ بھی وردی والے کریں گے نہ کہ عوام۔
کس قدر بھونڈے طریقہ سے واردات کی جارہی ہے۔ اس سے قبل تو سوشل میڈیا اس قدر فعال نہیں تھا، نہ ہی عوام میں شعور تھا، آج کے پاکستان میں اکثریتی آبادی نوجوان ہے اور معاملات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ دوسری جانب بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی نہایت فعال کردار ادا کررہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ابھی اگر ملک کو درستگی کی جانب نہ لے جایا گیا تو پھر ملک کا وجود خطرہ میں پڑ سکتا ہے۔ کسی حد تک یہ بات بعد از قیاس نہیں کہ معاملات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ اب نہ اظہار رائے کی آزادی ہے اور نہ ہی چادر و چار دیواری کا تحفظ باقی رہا ہے۔ کیا کوئی عدالت ہے جو عمران ریاض کی حالت پر سوال اٹھا سکے، پوچھ سکے اور وہ کون سی طاقت ہے جس نے عمران ریاض کی یہ درگت بنائی ہے۔ کہاں ہے دنیا بھر میں موجود پاکستانی میڈیا کے وہ نمائندے جو ماضی میں منہ پر تالا لگا کر تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل کرتے رہے ہیں۔ آج میڈیا کی آزادی کی بات کہاں دفن ہوگئی؟
حقیقت تو یہ ہے کہ اب پاکستان کی بقاءصاف و شفاف عام انتخابات کا انعقاد ہے۔ عوام جسے چاہیں منتخب کریں، وہ حکمرانی کا حق دار قرار پائے، تمام سیاسی پارٹیز کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہونا چاہئے، پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ اور دیگر جماعتیں آپس میں باہمی دست و گریباں ہونا چھوڑ کر باہمی ہم آہنگی سے الیکشن میں حصہ لیں۔ ہار جیت کو کھلے دل سے قبول کریں اور جیتنے والی پارٹی کو اپنی میعاد پوری کرنے دیں۔ اگر فوج سیاست میں دخل اندازی کرے تو اسے باہمی تعاون سے ان کی حدود میں رہنے کا پابند بنائے، چیف آف آرمی اسٹاف خود کو عوام کا ملازم سمجھے نہ کہ ملک کا بے تاج بادشاہ۔ یہی سب کچھ پاکستان کی سلامتی کا ضامن ہے۔ وگرنہ اب اگر پاکستانیوں کو نئی بوتل میں ڈال کر پرانی شراب پلانے کی کوشش کی گئی تو معاملہ ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ مسئلہ صرف پنجاب کا ہے جس کی آبادی پاکستان کی 65 فیصد ہے۔ اگر پنجاب کے عوام نے دیگر صوبوں کی آواز میں آواز ملائی اور فوج کو پابند کیا، الیکشن کو صاف و شفاف بنایا تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کا مستقبل تابناک ہو سکتا ہے مگر اگر پنجاب نے فیصلہ زبان، قومیت اور ذات کی بنیاد پر کیا تو پھر تو یہی کہوں گا کہ
یہ گھرا میرا گلشن ہے، گلشن کا خدا حافظ
284