اس وقت جو جنگ حسب روایت پاکستان پر مسلط کی گئی ہے اسے دشمن ایک فیصلہ کن جنگ کا نام دے رہے ہیں بظاہر یہ جنگ پاکستان کے روایتی دشمن پڑوسی ملک بھارت کی جانب سے شروع کی گئی ہے مگر اطلاع یہ بھی ملی ہے کہ یہ فیصلہ کن جنگ ایک ٹرائیکا کی جانب سے پاکستان پر مسلط کروائی گئی ہے اور یہ جنگ کسی فوری اشتعال کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خاص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے اس سارے فسانے میں اس ساری سازش کی ابتداءیا پھر شروعات عمران خان کے حکومت کا تختہ الٹانے سے کردی گئی تھی جس کا مقصد اسٹیبلشمنٹ سیکیورٹی فورسز اور عوام میں دوریاں پیدا کرنا تھا ان میں اتنی زیادہ نفرت بڑھانا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے بدترین دشمن بن جائے جب دشمن اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گئے تو پھر اس کے بعد موقع کی نزاکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ایسے وقت میں پاکستان پر حملہ کردیا جب واقعی لوہا گرم تھا، صرف ضرب لگانے کی دیر باقی تھی کیونکہ پاکستانی عوام کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ جیل میں ہے، لوگوں کو حکومت پر زبردست غم و غصہ ہے ایسے موقع پر لوگوں کو اکھٹا کرنا بہت مشکل کام ہے لیکن اس کے باوجود جنگ کے چھڑتے ہی قومی ملی نغموں کی گونج پر یقیناً ملکی عوام کا دشمن کے خلاف یک زبان ہو کر ایک ہنا ایک فطری امر ہے۔
اس کے ساتھ جس طرح کا غیر متوقع ردعمل یا پھر جوابی وار پاکستانی فوج کی جانب سے جب سامنے آیا تو اس سے حملہ آوروں کے حوصلے پست ہو گئے اور وہ حیران و پریشان ہو گئے وہ جسے تر نوالا سمجھ کر حملہ آور ہوئے تھے وہ تو ان کے لئے لوہے کے چنے ثابت ہوئے۔ دشمن بہت چالاک مکار اور عیار ہے وہ یہ جنگ اپنی بہادری اور دلیری کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی چالاکی اور مکاری سے جیتنا چاہتا ہے کیونکہ بہادری تو ان میں سرے سے ہے ہی نہیں۔۔۔۔
وہ یہ جنگ میر جعفر و میر صادقوں کے ذریعے جیتنے کی پوری منصوبہ بندی کرچکے تھے۔ دشمن اس جنگ کو ایک فیصلہ کن جنگ کا نام کیوں دے رہے ہیں۔۔۔؟ اور اس ٹرائیکا میں کون شامل ہیں۔۔۔؟ دشمنوں کی جانب سے اس حملے یا پھر جنگ کو فیصلہ کن کہنے کا مطلب پاکستان کو اسطاقت سے اس قوت سے محروم کرنا ہے جو دوسرے 57 اسلامی ملکوں سے پاکستان کو منفرد بناتی ہے یعنی پاکستان کو ایٹمی اثاثے سے محروم کرنا۔ ان کے ایٹمی ہتھیاروں کو ناکارہ بنانا۔ اس مقصد کے لئے ٹرائیکا نے پاکستان پر یہ جنگ مسلط کروائی ہے۔
پاکستان میں فارم 47 کے تحت ایک جعلی کٹھ پتلی حکومت کا لانا بھی اسی سلسلے کی کڑی بتلائی جاتی ہے، دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دہلی میں امریکی اور اسرائیلی طیاروں کی ہنگامی لینڈنگ بہت کچھ اشارے دے رہی ہے اب پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں اور خود پاکستان کی سلامتی کا پورا انحصار یا پھر دارومدار پاکستانی فوج پر ہے کہ وہ ملک پر آئی اس بلا سے ملک کو کس طرح سے نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ پورے ملک میں سیاسی افراتفری کو روکنے یا پھر اس کے خاتمے کے لئے مزاحمتی پالیسی کی بجائے مفاہمتی پالیسی کو اپنائے اور فوری طور پر عمران خان کو رہا کرے۔ اس وقت پاکستان کو ایک قد آور لیڈر کی ضرورت ہے جو اس صورتحال کی اونرشپ لے اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اس کے جنگی جرم سے دنیا کو آگاہ کرے کہ کون ہے جو تیسری عالمی ایٹمی جنگ کو دعوت دے رہا ہے۔۔۔؟ کون ہے جو پوری دنیا کے امن کو تہس نہس کررہا ہے اس کے لئے عمران خان کی اشد ضرورت ہے۔ تمام سیاسی اختلافات کو بھلاتے ہوئے ان کی خداداد صلاحیتوں سے اس وقت پاکستان کو مستفیض کروانے کی ضرورت ہے اسی میں پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری مضمر ہے۔
