پاکستان اپنے قیام کے فوری بعد محلاتی سازشوں کا شکار ہو گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ اپنی بیماری کے سبب زیادہ عرصہ حیات نہ پا سکے اور ملک کو صحیح سمت میں ڈالے بغیر اور آئین دیئے بغیر دارفانی سے کوچ کر گئے۔ پھر لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح اور دیگر رہنما بھی سازشوں کی نذر ہوگئے۔ یوں فوج منظرعام پر آگئی اور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ سنبھال لیا۔ اس وقت تک جو کچھ ہوا، کیسے کیسے پاکستان بنانے والوں کو ایک ایک کرکے راستے سے ہٹایا گیا، وہ تاریخ کا حصہ ہے مگر پاکستان کے عوام کی جہالت کے سبب انہیں آج تک بے وقوف بنایا جاتا رہا۔ اپنے اقتدار کو طول دینے اور اپنی بقاءکے لئے مشرقی پاکستان میں رہنے والوں کو ”غدار“ کہہ کر ایک سندھی وزیر اعظم کے ذریعہ علیحدہ کردیا گیا اور یوں بقیہ پاکستان پر مکمل قبضہ آج تک قائم و دائم ہے۔ اس دوران بلوچستان، سندھ، کراچی اور پختونخواہ میں جو کچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
حب الوطنوں نے غداری کا الزام لگا کر نہ جانے کیسے کیسے لوگ منوں مٹی تلے دفن کردیئے۔ نہ عوام کل بولے اور نہ آج بول رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب پر پردہ ڈال دیا گیا اور وہ لوگ جنہوں نے سازشوں کے جال بنے، آج تک کٹہرے میں نہیں لائے گئے۔
پھر اقتدار پر قدغن مارنے کا سلسلہ جاری ہو گیا اور نواز شریف، بے نظیر بھٹو، آصف زرداری، چوہدری برادران، متحدہ قومی موومنٹ اور دیگر جماعتوں کو وقفہ وقفہ سے عوام کے حقوق پر ڈاکہ مارنے کا پروانہ جاری کردیا گیا اور لوٹ مار کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ عدالتیں کیا، میڈیا کیا، بیوروکریسی کیا، اسٹیبلشمنٹ اور نام نہاد سیاسی قائدین سبھی نے دونوں ہاتھوں سے ملکی وسائل کو لوٹا اور ”پاکستان زندہ باد“ کا نعرہ عوام کو دے کر بے وقوف بناتے رہے۔ وقت گزرتا گیا مگر کب تک؟ آخر کار مکافات عمل کا شکار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سارے مفاد پرست آج ایک دوسرے کے خلاف دست و گریباں ہیں۔ وسائل کی تقسیم کی جنگ، لالچ اور ہوس نے ملکی سسٹم کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ غیر ملکی طاقتیں گدھ کی طرح پاکستان پر نظریں گاڑھے بیٹھی ہیں۔ اندرون ملک باہمی نفرتیں اپنے انتہا پر پہنچ چکی ہیں۔ سندھ حکومت، بلوچستان حکومت، سرحد حکومت اور وفاق کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ بیوروکریسی گھر بیٹھی ہے اور وزیر اعظم کے دوست، اندرونی اور خارجی معاملات کے فیصلہ کررہے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ملک غلط فیصلوں کے سبب دنیا بھر میں بدنام ہو رہا ہے۔ اداروں کے تصادم نہ جانے ملک کو کس جانب لے جائیں گے۔ صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔ عدالتیں اپنے فیصلوں میں اپنے ذاتی عناد کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ یوں اداروں کے مابین تصادم کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ بیرونی طاقتیں کبھی فوج کو گود میں بٹھا لیتی ہیں تو کبھی سول حکومت کو دانہ ڈال دیتی ہیں۔ اس بار یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان کی بنیادوں کو ہلانے کا کام چند قوتوں نے عدلیہ کو دے دیا ہے اور یوں حال ہی میں ایسے فیصلہ سامنے آئے کہ جن کے سبب ملک میں ایک انتشار کی صورتحال ہے۔ نہ جانے کیوں ہم مل بیٹھ کر اپنے معاملات کو بند کمرے میں طے نہیں کر لیتے۔ ہم کیوں بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بن کر اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف علم بغاوت بلند کردیتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے، حکومت اور تمام اداروں کو ایک صفحہ پر آکر، سیاسی قائدین کو بیٹھا کر معاملات کو دُرست سمت میں ڈالنا ہوگا۔ جو ہوا سو ہوا۔ اُسے بھلا کر نئے سال 2020ءمیں باہمی اتفاق و اتحاد کی فضا پیدا کرنا ہوگی۔ تمام اداروں کو اپنے دائرہ کار میں واپس جانا ہوگا۔ اگر ایسا کر سکے تو پھر ہمارے ملک کو آگے بڑھنے اور ترقی کی منازل طے کرنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ وگرنہ ہم نہیں تو ہمارے بچے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت کو تقسیم ہوتا دیکھیں گے۔
411