عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 212

لوٹا کریسی کا خاتمہ

سپریم کورٹ کے ایک تاریخ ساز فیصلے نے جہاں سابقہ وزیر اعظم عمران خان کے موقف کی تائید کردی وہیں پاکستان میں جمہوریت کے ٹمٹاتے ہوئے چراغ کو غیر سیاسی حربوں سے بجھنے سے بھی بچا لیا اور اس فیصلے کے ذریعے لوٹا کریسی کے تابوت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کردیا جو جمہوریت کے لئے زہر قاتل تھا اور دیمک کی طرح سے اسے چھلنی کررہا تھا۔ اس لئے 17 مئی پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کے دن کے طور پر منایا جائے گا۔ آج کا دن جمہوریت کی فتح کا دن ہے اب کوئی رکن اسمبلی اپنے ضمیر کا سودا کرکے اپنے حلقہ انتخاب اپنے ووٹروں کے ساتھ غداری نہیں کر سکے گا، اب کوئی ووٹرز کے امانت میں خیانت کا مرتکب نہیں ہو سکے گا؟ اب اپنی ہی پارٹیوں جس کے بل بوتے پر لوگ اسمبلی تک پہنچتے ہیں ان میں شب خون نہیں مار سکے گا اور نہ ہی اپنی ہی پارٹی یا اس کی حکومت میں شگاف ڈالنے کا باعث بن سکے گا یہ کام جو بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا دیر آئے درست آئے کی مصداق اب بھی ہوا تو غلط نہیں ہوا بلکہ اس سے پورے پاکستان کی سیاست ہی بدل جائے گی جو گھٹن پاکستانی سیاست میں اس وقت الیکشن کے حوالے سے چھا گئی تھی وہ بھی چھٹ جائے گی۔ پنجاب کی مانگے تانگے کی حکومت ختم ہوجائے گی اور مرکز میں ایک سیٹ پر کھڑی 16 جماعتوں کی لنگڑی لولی حکومت بھی عوامی سیلاب کا مقابلہ نہیں کر پائے گی جس کے بعد سوائے الیکشن میں جانے کے اور کوئی بھی چارہ حکمراں پارٹیوں کے پاس نہیں رہے گا۔ دل پر جبر کرتے ہوئے مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری کو بھی یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑے گا جو سب سے زیادہ بروقت الیکشن کے مخالف ہیں اور وہ اصلاحات کے بہانے ڈیڑھ سال تک حکومت کرنے کے خواہش مند ہیں مگر موجودہ اس بدلتی ہوئی صورتحال میں انہیں بھی اپنی خواہشات کی قربانی دینا پڑے گی۔ وہ زیادہ عرصے تک اپنے نونہال کو وزیر خارجہ بنوا کر ایک نئے پروڈکٹ کے طور پر عالمی دنیا میں متعارف نہیں کرواسکیں گے۔ لگتا ہے کہ ان کا امریکہ کا پہلا دورہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے آخری دورہ ہی ثابت ہوگا۔
شکر ہے کہ جو اندازے پاکستان اسٹیبلشمنٹ نے بالخصوص اور امریکی اسٹیبلشمنٹ نے بالعموم عمران خان سے متعلق لگائے تھے وہ سارے کے سارے غلط ثابت ہوئے بلکہ ان کے غلط اندازوں کے نتیجے میں لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد تو خود ڈرون بن کر دونوں اسٹیبلشمنٹ پر جا گری کیونکہ تحریک عدم اعتماد تو وہ لات ثابت ہوئی، معذرت کے ساتھ جو کبڑے کو جا کر گلی اور اس کی کب سیدھی ہو گئی۔ وہ عمران خان جو مہنگائی اور بیڈ گورننس کی وجہ سے بلندی سے نچلی سطح پر پہنچ گیا تھا اس عدم اعتماد کی تحریک نے عمران خان کو علامہ اقبال کا شاہین بنا دیا۔
نہیں نشیمن تیرا قصر سلطانی کے گبند پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
اسے کہتے ہیں غیبی مدد، یہ قدرت کی مدد تھی جو عمران خان کو ان کے دشمنوں کی جانب سے ملی یعنی ”مارنے والے سے بچانے والا“ بہت بڑا ہے، والی کہاوت یا بات سو فیصد درست ثابت ہوئی اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت قوم دو حصوں میں بٹ چکی ہے تو غلط نہ ہو گا، ایک حب وطنی اور دوسرا ملک دشمنی غداری کا ہے، جو لوگ عمران خان کے جلسوں میں شامل ہو کر ان کے ساتھ چل پڑے ہیں یہ تو ثابت ہے کہ وہ غداروں کے خلاف ہیں اور وہ اپنی آزادی و خودمختاری پر کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں، مہنگائی اور بے روزگاری پر خودداری اور آزادی غالب آچکی ہے جس کا ثبوت ملک کا موجودہ منظرنامہ ہے، پورا ملک ملی نغموں سے اس وقت گونج رہا ہے، انتخابی ماحول بنتا چلا جارہا ہے، لوگوں میں جوش و جذبہ خاص طور سے عورتوں میں بڑھتا چلا جا رہا ہے، یہ عوامی ریفرنڈم ملک دشمنوں کے لئے موت کا پیغام ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں