بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 152

متحدہ کا فیصلہ! مجبوری یا مصلحت

گزشتہ کئی ہفتوں کی متنازعہ خبروں کے بعد آخرکار تمام اتحادی پارٹیوں کا فیصلہ سامنے آگیا۔ چوہدری پرویز الٰہی حکومت کی جانب چلے گئے جب کہ بلوچستان عوامی پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) نے متحدہ اپوزیشن کے ساتھ معاہدہ کا فیصلہ کیا۔ تمام جماعتوں میں متحدہ نے فیصلہ میں تاخیر کی اور سب سے آخر میں اپنا فیصلہ سنایا جس کے نتیجہ میں یقیناً انہیں شدید مخالفت کا سامنا ہوگا۔ یہ بھی کہا جائے گا کہ متحدہ نے سودے بازی کی، کوئی کہے گا کہ متحدہ نے ملک دشمن نام نہاد جمہوریت کے نعرہ لگانے والوں سے سازباز کرلی مگر اگر جائزہ لیا جائے تو بھی متحدہ کے لئے یہ فیصلہ کرنا نہایت مشکل کام تھا اگر وہ حکومت کے ساتھ رہتے تو پھر سندھ سے غداری کے مرتکب ٹھہرتے۔ مگر حکومت کا اور پیپلزپارٹی کے ساتھ چلے ہیں تو یہ کام تو وہ گزشتہ 32 سالوں سے کرتے چلے آئے ہیں۔ ہمیشہ یہی ہوتا رہا کہ حکومتوں کو گرانے اور بچانے کا کام متحدہ کرتی رہی مگر تمام وعدے اور معاہدے حالات کے ساتھ دم توڑ گئے۔ نہ کوٹہ سسٹم ختم ہوا، نہ ظلم بند ہوا بلکہ متحدہ سے سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندگی تک چھین لی گئی اور اُن کے ووٹرز کو یا تو مار دیا گیا یا پھر زبان بندی کردی گئی۔
کراچی اور سندھ کے اربن شہروں میں رہنے والوں پر تعلیم اور روزگار کے دروازے بند کردیئے گئے۔ اندرون سندھ سے لا کر کراچی کی انتظامیہ کو ان کے حوالے کردیا گیا۔ شاہراہوں پر کراچی کے باسیوں کی فیملیز کو گاڑی سے اتار کر جس قدر بے عزتی گزشتہ چند سالوں سے ہو رہی ہے، وہ ناقابل فراموش ہے مگر متحدہ کے پاس کوئی راستہ بھی نہیں، ایک بار پھر انہوں نے کھلے دل سے اس امید اور آس کے ساتھ کہ شاید اس بار سندھ دھرتی کے رہنے والے ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کی ان اولادوں سے جو پاکستان میں پیدا ہوئے شاید رحم کا رویہ اپنائیں اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے حصے کی روٹی میں سے اردو بولنے والوں کا حصہ بھی مختص کردیں۔ قومیتوں کی بنیادوں پر باہمی نفرتوں کو ختم کرنے کی سعی کی جائے، کوٹہ سسٹم ختم کیا جائے، ملازمتوں میں صلاحیتوں کی بناءپر نوجوانوں کو موقع دیا جائے۔ زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ ختم کئے جائیں اور مل جل کر ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے کام کیا جائے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
مگر بظاہر یہ کام مشکل نظر آتا ہے کہ اس معاملہ میں کوئی سنجیدہ نہیں اور سب حکمران اپنی مفادات کی آگ میں سلگ رہے ہیں۔ اب پاکستان کے پاس وقت نہیں، اگر اب نہیں تو کبھی نہیں، اگر یہ سب کام ناممکن ہے تو پھر جمہوریت کی بساط کو لپیٹ کر ایمرجنسی نافذ کردی جائے اور اس نظام کی تبدیلی پر کام کیا جائے کہ اب پوری دنیا ایک نئی صورتحال سے دوچار ہے اور آنے والا وقت پاکستان کو خوفناک حالات سے دوچار کرسکتا ہے۔ ایسی صورت میں نہ فوج کی وردیاں بچیں گی نہ حکمرانوں کی کرسیاں۔
اب فیصلہ کی گھڑی ہے، اب مل جل کر ایک دوسرے کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی جائے اور نفرتوں کی آگ میں جلنے اور انتقامی کارروائی کے بجائے مثبت سوچ کے ساتھ ملک اور عوام کے لئے کام کیا جائے۔ بیرونی طاقتوں کے معاملہ میں سب پاکستانی اپنے اختلافات بھلا کر یک زبان ہوں اور یکجہتی کی مثال قائم کریں۔ سمجھ لیں یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں۔ اختلاف رائے کو نفرت میں نہ بدلیں۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ یہی ہماری سلامتی کی ضمانت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں