کارنامہ یا ایک نئی جنگ کی شروعات 165

مدعی سست گواہ چست

اب جب کہ یہ بات روز روشن کی طرح سے عیاں ہو چکی ہے کہ پاکستان میں عمران خان کے خلاف غیر ملکی سازش ہوئی تھی جس کے شواہد بھی تواتر کے ساتھ سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں، داڑھی میں تنکے کے مصداق امریکہ کو بار بار صفائی پیش کرتے ہوئے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ امریکہ کا کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ ان کا سرکاری بیان ہے لیکن ان کے سابقہ ریکارڈ سے ایک دنیا واقف ہے کہ امریکہ جو کہتا ہے وہ کرتا نہیں۔ اور جو کرتا ہے اس کا چرچا نہیں کرتا۔ پاکستان میں عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا لائے جانا پوری کی پوری بیمار اپوزیشن کا ایک بڑے میڈیا ہاﺅس کے زیر سایہ متحرک ہونا یہ سب کے سب اسی سازشی سلسلے کی کڑیاں معلوم ہو رہی ہیں، بڑے ہی دکھ کے ساتھ مجھے یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ملک کے سلامتی اور خودمختاری پر کئے جانے والے اس بیرونی حملے کے نتیجے میں قوم اور ملک اور تمام سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا لیکن افسوس کے اس نازک ترین صورتحال پر بھی ذاتی مفاد کو قومی اور ملکی مفاد پر ترجیح دیتے ہوئے سیاست کی جارہی ہے جس ملک پر سازش کا الزام لگایا گیا ہے اس سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے بعض دانشور نما صحافیوں نے تو غیر ملکی سازش کرنے والے بڑے ملک کے ترجمان بن کر ان کی وکالت کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور اسے معصوم اور پاکستان کا سب سے بڑا ہمدرد اور دوست بنا کر پیش کیا جارہا ہے اس ملک کی حمایت اور وکالت کی جارہی ہے جو ماضی میں پاکستان پر ڈرون حملوں کے ذریعے لاکھوں بے گناہوں کو ہلاک کروا چکا ہے۔ اس ملک کی حمایت اور وکالت میں پاکستان کی اپوزیشن پارٹیاں اور ایک میڈیا ہاﺅس عمران خان کی حکومت کے ساتھ ساتھ ملک کے سیکورٹی فورسز کے خلاف آگئے ہیں اور انہیں لعن طعن کررہے ہیں اس سے زیادہ دکھ اور افسوس کا مقام اور کیا ہو گا اور اس طرح کے عمل کرنے والوں کو قوم غدار نہ کہے تو پھر کیا کہے۔۔۔؟
قوم کے امریکی مخالفت پر اپوزیشن پارٹیوں اور خود ایک میڈیا ہاﺅس کی جانب سے خبروں اور تبصرں کی صورت میں اس طرح کا ردعمل آرہا ہے کہ جیسے عمران خان یا ان کی جماعت والے اور دوسرے پاکستانی امریکہ کی مخالف نہ کررہے ہو بلکہ اپوزیشن والوں قاور میڈیا ہاﺅس والوں کو ماں بہن کی گالیاں دے رہے ہوں۔
یہ سب کیا ہے؟ انہیں اس نازک اور حساس موقع پر تو ملک کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے لیکن افسوس وہ اپنے ان ہی آقاﺅں کے ساتھ کھڑے دکھائی دے رہے ہیں جو پاکستان کے آزاد خارجہ پالیسی کے دشمن ہیں اور وہ پاکستان کو اپنی کالونی کی طرح سے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
اپوزیشن اور خود میڈیا ہاﺅس کو ساری صورتحال کا ادراک ہے مگر اس کے باوجود وہ ذاتی مفاد کو ملکی اور قومی مفاد پر ترجیح دے رہے ہیں اور اب روایتی طور طریقوں سے ملک کی سب سے بڑی عدلیہ پر دباﺅ ڈال کر ان سے اپنے حسب منشا فیصلہ کروانے کی کوشش کررہے ہیں۔ فارسی کی مشہور کہاوت ”مدعی سست گواہ چست“ کا ذکر میں اس لے کررہا ہوں کہ چونکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی بلکہ خود روس کے دفتر خارجہ کی جانب سے بھی اس صورتحال پر ایک بھرپور بیان آیا ہے جس سے یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ عمران خان کی حکومت محض اس لئے گرا رہا ہے کہ عمران خان کی امریکی دباﺅ کو قدموں کی ٹھوکر بناتے ہوئے روس کا دورہ کیا تھا جس کے بعد ہی عمران خان کی حکومت کے خاتمے کا عالمی منصوبہ بنایا گیا جس کے لئے پاکستان کی اپوزیشن اور ایک بڑے میڈیا ہاﺅس کو تیار کیا گیا یہ وہ ساری صورتحال ہے جس کا علم پاکستان کے تمام حساس اداروں کے علاوہ خود دنیا بھر کے حساس اداروں کے پاس رپورٹوں کی شکل میں ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کی عدلیہ اور خود سیکورٹی فورسز اس عالمی دباﺅ کا مقابلہ کرکے ملک کی خودمختاری کو بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے یا پھر وہ سست مدعی بن کر اپنے دعوے سے ہی دستبردار ہو جائیں گے اس وقت ساری دنیا کی نظریں پاکستان کی اس بدلتی ہوئی صورتحال پر ہے جس میں خود وزیر اعظم عمران خان کی زندگی کو بہت بڑا خطرہ ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے مگر پاکستانی عوام اس وقت پوری طرح سے متحرک ہو کر سیاستدانوں کو اچھی طرح سے جان چکی ہے اور وہ اپنی خود داری پر کسی بھی طرح سے سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں