نیو یارک: سائنسدانوں نے ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ موت کے وقت انسان اور جانوروں کا دماغ ایک ہی طرح کام کرتا ہے، جب جسم مر جاتا ہے اور دماغ میں خون کا بہاو¿ رک جاتا ہے تودماغ کے خلیے اور نیورونز دل کی دھرکن رک جانے کے بعد بھی کام کرتے ہیں اور موت سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، مرنے والے نیورون باقی ماندہ توانائی کو استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، الیکٹرو مکینیکل توازن کی وجہ سے دماغ کے خلیے تباہ ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے تھرمل انرجی نکل جاتی ہے اور اس کے بعد انسان مر جاتا ہے۔
مرتے وقت کسی کے دماغ میں کیا ہوتا ہے؟اس حوالے سے کسی کے پاس بھی صحیح معلومات نہیں ہیں، جینز ڈرائر کی سربراہی میں کام کرنے والے برلن اور اوہائیو کی سنسناٹی یونیورسٹی اور چیریٹی یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک تازہ تحقیق کی ہے جس سے نیورو سائنس کے بارے میں دلچسپ معلومات ملتی ہیں۔
بی بی سی کے مطابق تحقیق کے دوران سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ موت کے وقت انسانوں اور جانوروں کا دماغ ایک ہی طرح کام کرتا ہے۔ سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ تحقیق کیلئے منتخب کیے گئے 9 میں سے 8 مریضوں کے دماغ کے خلیے موت سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے اور یہ دل کی دھرکن رک جانے کے بعد بھی کام کر رہے تھے اور اس کے لیے یہ گردش کرنے والے خون کا استعمال کرتے ہیں اور اس سے کیمیکل انرجی اور آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق جب جسم مر جاتا ہے اور دماغ میں خون کا بہاؤ رک جاتا ہے تو مرنے والے نیورون باقی ماندہ توانائی کو استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔الیکٹرو میکینیکل توازن کی وجہ سے دماغ کے خلیے تباہ ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے تھرمل انرجی نکل جاتی ہے اور اس کے بعد انسان مر جاتا ہے۔
تحقیق کے سربراہ جینز ڈرائر کا کہنا ہے کہ ’ایکسپینشنل ڈی پولارائزیشن سیلولر ٹرانسفارمیشن شروع کرتا ہے اور پھر ختم ہو جاتا ہے، لیکن یہ موت نہیں، کیونکہ انرجی کی سپلائی کو بحال کر کے ڈی پولارائزیشن کو الٹ کیا جا سکتا ہے۔‘