امارات کے ہوم گراﺅنڈ پر ناقص کارکردگی کے بعد پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا جنوبی افریقہ کے خلاف جس طرح آغاز ہوا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کس طرح کے حالات سے دوچار ہے۔ اس ٹیم میں منتظمین کی ٹیم کے ایک بڑے دھڑے سے کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کا مقابلہ چل رہا ہے اس میں کبھی منتظمین کی ٹیم کی جیت ہوتی ہے، کبھی کھلاڑی کامیاب ہو جاتے ہیں یہ آپس میں ہی اپنی مقابلے بازی سے فارغ ہوں تو اپنی اپنی کارکردگی کی طرف توجہ دیں مگر جس طرح ملک میں سیاست کی جارہی ہے اس ہی طرح کھلاڑی اور منتظمین بھی آپس میں سیاست کرکے اپنے اپنے آپ کو کامیاب قرار دے رہے ہیں مگر غیر ملکی کرکٹ ٹیموں کے سامنے دونوں طرف کی کارکردگی منفی نظر آتی ہے۔ ہماری معاشرتی صورت حال کے اثرات کرکٹ ٹیم پر نمایاں طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی اور پاکستان کی حکومت کی حیثیت ایک جیسی ہے۔ ملک کے حکمراں کی خوشنودی کے لئے ہر وہ کام کیا جاتا ہے جو حکمران کے مزاج کے مطابق ہو چاہے اس سے ملک کو نقصان ہو یا غیر ضروری ہو۔ یہ ہی حال کرکٹ ٹیم کے کرتا دھرتا لوگوں کا ہے۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر نئے کھلاڑی اپنے لڑکوں کو لاتے ہیں جو پرانے کھلاڑیوں کی جگہ کر پر نہ کر سکیں۔ یعنی کرکٹ ٹیم کے بڑوں کا وہی رویہ ہے جو ملک کے بڑے حکمرانوں کا ہے یہ حکمران سب سے پہلے اپنے آپ کو اپنے خاندان کو اولیت دیتے ہیں اور ملک کے مفاد کو بعد میں۔ پھر ایک دوسرے کو اس نقصان کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ فوجی حکمراں سیاستدان کو خرابی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں یہی صورت حال سیاستدان کی ہے کہ وہ فوجی حکمرانوں کو ہر خرابی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ اور عوام کی حالت یہ ہے کہ ان کے لئے ایسا ہی ہے جیسے سو پیاز کے گٹھے اور سو جوتے کی مثال دی جاتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام سیاستدان برائی کے ذمہ دار نہیں اسی طرح تمام فوجی حکمران ہی اس کے ذمہ دار ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ملک میں ستر سال میں ترقی معکووس ہی رہی ہے برائی کا آغاز ایوب خان کے فوجی اقتدار سے ہوا جس نے پاکستان کے سیاسی نظام کو لپیٹ کر اپنے فوجی حکمران کا آغاز کردیا جس سے وقتی طور پر کچھ ترقی ہوئی جب کہ اس وقت تک پاکستان اور بھارت کی ترقی کی رفتار ایک جیسی تھی پاکستان کا مقابلہ کرکٹ ٹیم میں یا ہاکی ٹیم میں۔ یا فلم انڈستری میں اور فنون لطیفہ میں یکساں تھا یہی صورت حال سیاسی نظام کی تھی جہاں پر دونوں طرف کی حکومتوں میں ایک جیسی طرز سیاست تھی یعنی ان کی مثال کچھوے اور خرگوش کی تھی پاکستان میں فوجی حکمرانوں نے ملک کو خرگوش کی مانند بنا دیا جو ایک جست میں بڑا فاصلہ طے کرکے رک جاتا جب کہ بھارت کچھوے کی مانند آہستہ آہستہ آگے کی جانب بڑھتا گیا۔ جب پاکستان میں کوئی بہتر سیاستدان اقتدار میں آیا تو ملک خرگوش کی مانند جست بھرتا ہوا آگے بڑھ جاتا جیسے بھٹو یا بے نظیر اس ہی طرح جب فوجی حکمرانوں میں موجودہ راحیل شریف یا پرویز مشرف جن کی پالیسیوں کے مثبت اثرات ملک میں واضح طور پر نظر آنے شرع ہو گئے اس کے برخلاف ضیاءالحق اور ایوب خان کے دور کے اثرات کی وجہ سے پہلے تو ملک نیم لخت ہوا پھر ضیاءالحق کی بدولت ملک آگ کے سمندر سے گزرنا شروع ہوا۔ حالات کی نوعیت اب ایسی ہو گئی کہ ملک کے حالات نہ سیاستدانوں سے سنبھالے جارہے ہیں نہ فوجی حکمرانوں سے یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے میں حالات کو قابو میں رکھنے کے لئے سیاستدان اور فوجی حکمران مل کر کام کررہے ہیں جب کہ دونوں ہی الگ الگ حالات پر قابو نہیں پا سکتے۔ دوسری طرف کچھوے کی رفتار سے بھارت آگے کی جانب بڑھتا چلا گیا۔
اب حالات بھارت کے لئے اس قدر مناسب ہو گئے ہیں کہ پاکستان اپنے لاکھوں لوگون کی جانوں کی قربانی دینے کے باوجود دنیا میں ناقدری کا شکار ہے جب کہ بھارت نے اپنی حیثیت اس قدر مضبوط بنا لی کہ دنیا بھر میں اس کو عزت کا مقام دیا جارہا ہے۔ بھارت زندگی کے ہر شعبہ میں پاکستان سے بہت آگے نکل چکا ہے، کرکٹ میں پاکستان کی سرزمین پر کوئی ٹیم میچ کھیلنے کی روادار نہیں، دنیا کے کمزور کرکٹ کے ملکوں کی کرکٹ ٹیم پاکستان میں آکر کرکٹ کھیلنے کو تیار نہیں جیسے کے بنگلہ دیش، سری لنکا، بھارت علاقے کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے بڑوں میں شامل ہے اس کی اہمیت کرکٹ کے ساتھ ساتھ دیگر بین الاقوامی امور میں دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ یہ صرف اس ملک کے حکمرانوں اور عوام کی اپنے ملک سے محبت کی بدولت ہے جو ہر معاملے میں ملکی مفاد کو مقدم رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں نعرے تو بڑے بڑے لگائے جاتے ہیں ملک سے محبت کے گیت گائے جاتے ہیں جب کہ عملی طور پر ہر کوئی اپنی ذاتی مفاد کو اولیت دے کر ملکی مفاد کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور جو اپنے ملک سے شدید محبت کرتے ہیں وہ اس کی اس حیثیت پر خون کے آنسو روتے، بار بار اپنی قوم کو اپنے حکمرانوں کو جھنجھوڑتے مگر ان کے آنسوﺅں اور چیخوں کی ان حکمرانوں کو کوئی پروا نہیں۔
پاکستان میں یہی صورت حال کرکٹ کے کھیل کے ساتھ ساتھ دیگر تمام کھیلوں کی ہے دنیا کے کسی مقابلہ میں اس کا کوئی مقام نہیں ہے انفرادی طور پر کچھ کھلاڑی دنیا میں کسی مقام کے حامل رہے ہیں جیسے جان شیر خان، جہانگیر خان، عمران خان، جاوید میانداد یا ملالہ یوسف زئی یا شرمین عبید چنائے بین الاقوامی طور پر پہنچانے جاتے ہیں۔ عبدالستار ایدھی کی ذاتی حیثیت کو دنیا بھر میں بہت پذیرائی حاصل رہی ہے۔ لیکن جب بات مجموعی کارکردگی کی ہوتی ہے وہاں پاکستان کا کوئی مقام نہیں۔ موقع بہ موقع کچھ حالات و واقعات ایسے ہو جاتے ہیں جس کو بنیاد بنا کر ہمیں کچھ دیر کے لئے خوشی محسوس ہوتی ہے، باقی ہر طرف گھنگور اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے۔ کبھی کوئی امید کی کرن نظر آتی ہے مگر کچھ ہی دیر کے بعد غائب ہو جاتی ہے۔ بالکل ایسے جیتتے جیتتے ہار جاتے ہیں یا کبھی ہارتے ہارتے جیت جاتے ہیں۔ کرکٹ ٹیم کی نوعیت دیگر تمام شعبوں کی طرح ایک ہی طرح کی تصویر دکھائی دیتی ہیں جس شعبہ کا جائزہ لیا جائے اس کا حال ایک جیسا ہی ہے، پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے چوتھا میچ جیت کر پھر امید دلا دی ہے کہ دیگر میچوں میں بھی ایسی کارکردگی دکھا کر ہمارے عوام کو کچھ دیر کی خوشیاں فراہم کردیں۔ امید پر دنیا باقی ہے۔
