اسلام آباد (پاکستان ٹائمز) پاکستان کیسا خودمختار ملک ہے کہ جس کے سارے مالیاتی معاملات بیرونی قوتوں کے ہاتھوں میں ہیں حتیٰ کہ بینک دولت پاکستان بھی یرغمال بنا ہوا ہے۔ کئی ماہ کی ذہنی اذیت کے بعد آئی ایم ایف نے وقتت ریلیف دے کر اونٹ کے منہ میں زیرہ تو ڈال دیا مگر پاکستان کا معاشی مستقبل کیا محفوظ ہو گیا؟ یہ سوال ہر ذی شعور کے ذہنوں میں اٹھ رہا ہے، نہ جانے کتنے مزید گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ جائیں گے، نہ جانے مزید کتنے لوگ بھوک سے خودکشی کریں گے، کتنی خواتین اپنے بچوں کے پیٹ کا جہنم بھرنے کے لئے حکمرانوں کی ہوس کی آگ بجھائیں گی۔ کتنے مزید پاکستانی خود غرضوں، مفاد پرستوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھ جائیں گے؟ اس بات کی فکر نہ تو حکمرانوں کو ہے اور نہ ہی قیام پاکستان سے لے کر آج تک حکمرانوں کو لانے والے کرشمہ سازوں کو۔ آئی ایم ایف نے 9 ماہ کے لئے وقت ریلیف تو دے دیا جس کی خوشیاں ہم منا رہے ہیں اور عوام کو سب اچھا کی نوید سنا رہے ہیں مگر کیا ہم نے سوچا کہ اس موڑ پر نو ماہ کے مختصر عرصہ میں ملکی معیشت مستحکم ہو جائے گی۔ جس سیاسی ناعاقبت اندیشی اور باہمی چپقلش کا ہمارا ملک شکار ہے کیا ان حالات میں حکمرانوں یا اپوزیشن کوئی فیصلہ کر سکیں گے؟ کیا اگلے چند ماہ میں ملک میں انتخابات ہونا ممکن ہیں، کیا سیاستدانوں کے ذاتی اختلافات اب ذاتی دشمنی میں تبدیل نہیں ہوگئے۔ کیا عوام مکمل طور پر تفریق کا شکار نہیں ہو گئے، کیا صوبے زبانوں کی بنیادوں پر تقسیم کے عمل کی جانب گامزن نہیں؟ بیرونی طاقتیں ہماری تمام کمزوریوں سے بخوبی آگاہی رکھتی ہیں اور ہمیں آہستہ آہستہ اس بندگلی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ جہاں سے کوئی راستہ باہر نکلنے کا نہیں۔ معیشت کی بہتری کے بغیر سیاست آگے نہیں بڑھ سکتی اور ریاست سیاست کے بغیر کچھ کرنے سے معذور ہے۔ سیاست عدم استحکام کا شکار ہے۔ 2018ءکے انتخابات کے نتیجہ میں جو شطرنج کی بساط بچھائی گئی تھی۔ اس کے مہرے آنے والے وقت میں پابند سلاسل اور مشکل حالات سے دوچار ہوتے نظر آتے ہیں۔ جنگ کا اصل محور عمران خان اور نواز شریف ہیں اگر باہمی تصفیہ کے ذریعہ اور وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے، آئینی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے آگے قدم نہیں بڑھایا گیا تو پھر ایک ہی بات سامنے ہو گی کہ
یہ گھر میرا گلش ہے، گلشن کا خدا حافظ
110