بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 567

مقام شرم ہے

نیوزی لینڈ میں ایک سفاک قاتل کے ہاتھوں 50 سے زائد مسلمانوں کی شہادت اور زخمیوں کی ہسپتال میں زندگی و موت کی جنگ میں مبتلا ہونے کے باوجود ہم ”کرکٹ فوبیا“ سے باہر نہ نکل سکے۔ پوری دنیا اس واقعہ پر سوگوار ہوگئی، امریکی صدر ٹرمپ جیسے سفید فام افراد کو بھی واقعہ کو دہشت گردی سے تعبیر کرنا پڑ گیا۔ نیوزی لینڈ کی عوام گھروں سے نکل آئی۔ کیا یہودی، کیا نصاریٰ، سب کے سب آنکھوں میں آنسو لئے، مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لئے مساجد کے باہر پہنچ گئے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے کالے کپڑے زیب تن کرلئے، سر پر دوپٹہ رکھ لیا، آنکھوں میں ندامت کے آنسو اور ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو گئیں کہ آپ لوگ مجھے معاف کردیں، میں آپ کی حفاظت نہ کرسکی۔ قاتل کو عدالت میں پیش کرکے فرد جرم عائد کردی گئی۔ نیوزی لینڈ میں گن رکھنے کے قانون میں تبدیلی کا بل پیش ہو گیا اور لوگوں نے بطور احتجاج اپنی اپنی گنیں پولیس کے پاس جمع کروادیں۔ نیوزی لینڈ سینٹ پیٹرک ڈے کی روایتی پریڈ منسوخ کردی گئی اور متاثرہ خاندانوں کو فائناشل سپورٹ دینے کا اعلان بھی حکومت نے کردیا۔ ایسے ہوتے ہیں حکمران اور ایسی ہوتی ہیں زندہ قومیں، جب کہ دوسری جانب ہمارے ملک جو اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے، کس قسم کا غم و غصہ دیکھنے میں نہ آیا جو پاکستانی اس واقعہ میں شہید ہوئے تھے ان کے اہل خانہ پر کیا گزری ہوگی جب ہمارے صدر، آرمی چیف، وزیر اعلیٰ اور حکومتی وزراءکو تالیاں اور شادیانے بجاتے ان گھرانوں نے دیکھا ہوگا۔ جن کے گھر میں صف ماتم بچھا تھا اور وہ دہائیں دے رہے تھے، کسی کے سہاگ اجڑا گیا، کسی کا باپ ان سے بچھڑ گیا تو کسی کا بیٹا بوڑھے والدین کو زندہ درگور کر گیا۔ مگر ہمیں کیا، ہمارے منہ کو تو خون لگا ہوا ہے، ہم تو روز اپنے ملک میں اپنوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر عادی ہو چکے ہیں۔ ہمیں مرنے اور مارنے سے اب خوف نہیں آتا، اور نہ ہی ہمارا احساس زندہ ہے، وگرنہ ہم حکام بالا سے یہ درخواست ضرور کرتے کہ چلئے کرکٹ میچ اپنی جگہ مگر اسے دیر سے شروع کرکے تعزیتی جلسہ نیشنل اسٹیڈیم میں ہی کر ڈالتے۔ فنکاروں اور ڈھول دھماکہ ختم کر دیتے اور خاموشی سے میچ دیکھ کر گھر چلے جاتے، مگر ہم نے دنیا بھر کو دکھایا کہ لوگ مریں یا جیئں ہمیں غرض نہیں، ہمارے لئے کرکٹ کا میدان اور کرکٹر اہم ہیں۔ اور انسانی جان سے زیادہ ہمارے لئے کھیل اہم ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یورپی ممالک، امریکہ اور کینیڈا کو ہم پر مسلط کر دیا ہے اور ہم ان ممالک کے محتاج ہیں کیونکہ خدائے بزرگ و برتر سے زیادہ کون ہمارے دلوں کا حال جانتا ہے، وہ ہی تو ہے جسے معلوم ہے کہ ہم کس قدر سفاک اور بے حس ہیں، یہ ہم ہی تو ہیں جو اپنی ہم وطن ننھی زینب کو بے دردی سے بے لباس کرتے ہیں اور پھر بھی بس نہیں کرتے اور اس کے ہاتھ پاﺅں توڑ کر اس حوّا کی بیٹی کو کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں۔ ہمیں ہی تو ہیں جو اپنی عورتوں کو پابند سلاسل رکھتے ہیں اور دن رات اُن کی بے حرمتی کرتے ہیں، ان کے چہروں پر تیزاب پھینکتے ہیں اور دن دھاڑے ان کی عزت سے کھیلتے ہیں، یہ ہم ہی تو ہیں جو پنجاب کی گلیوں میں اپنے مخالفین کی عورتوں کو برہنا کر کے مارچ کرواتے ہیں، یہ سب کچھ ہم ایک مسلمان کی حیثیت سے کرتے ہیں، ہم جو اللہ کے ماننے والے ہیں، ایک نبی اور ایک قرآن کے رکھوالے، مگر کس قدر ظالم ہیں، کہ صرف فرقوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کو لہولہان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ہمیں کیوں ملال ہو اس بات کا کہ نیوزی لینڈ میں 50 افراد شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئے، کیوں کہ ہم تو خود ایک دوسرے کو کافر کہہ کہہ کر لقمہءاجل بنا رہے ہیں، مارنے والا بھی نعرہ تکبیر بلند کررہا ہے اور مرنے والا بھی با آواز بلند کلمہءحق پڑھ رہا ہے مگر پھر بھی ہمارا یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت صرف ہم مسلمانوں کے لئے بنائی ہے، ہمارے علاوہ تمام مذاہب کے لوگ جہنم واصل ہوں گے۔ ہم جو قرآن کی موجودگی میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے والے معصوم بچوں پر تشدد کرتے ہیں، ان کے ساتھ بدکاری کرتے ہیں اور یوں ہم کتاب مقدس کے تقدس کو روز پامال کرتے ہیں، یہ سب کچھ کرنے کے بعد ناجانے کس منہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے معافی کے خواستگار ہوتے ہیں، اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی غرض سے اور ہر سال حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرکے سمجھتے ہیں کہ جنت کا ٹکٹ ہمیں ہی ملنا ہے۔ نیوزی لینڈ کے واقعہ کے بعد کیا ہم اپنے آپ سے سوال کریں گے کہ ہم نے یمن میں حملہ کرکے سو سے زائد جن مسلمانوں کا خون کیا وہ کون تھے؟ نجانے کب ہم اس دور جہالت سے باہر نکلیں گے۔ نجانے کب ہم نبی کریم کے آخری خطبے کو سمجھ کر پڑھیں گے اور ان سے زبانی محبت کے اظہار کے بجائے عملی محبت کا نمونہ کب پیش کریں گے۔ ہمیں اس دن کا انتظار ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں