۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 524

موازنہ

صاحبو! کبھی آپ نے غور فرمایا کہ انسانوں کی اس دنیا میں جانوروں کا کس قدر اہم کردار ہے۔ ہماری معاشرت میں اس بے زبان جنس کو جو اہمیت حاصل ہے اس کا ادنیٰ سا اشارہ بلکہ کہنا چاہئے کہ نسل انسانی کی بنیاد بھی اسی مخلوق کی مرہون منت ہے۔ حضرت ڈارون نے ہمارے اباﺅ اجداد بندر قرار دیئے ہیں جو ترقی کرتے کرتے انسان بن گئے گو کہ ہر فرد کو اختیار ہے کہ وہ ”Roots“ کے ہیرو کی طرح اپنی جڑیں تلاش کرے اور ان پر فخر کرے۔ سو یہاں ڈارون نے اپنی جڑیں تلاش کرلیں اور سچی بات یہ ہے کہ آج بھی انسان اپنی حرکات و سکنات، مزاج، اچھل کود، دوسروں کی توپیاں اچکنے، پرایا مال کھانے، دوسروں کی نقلیں اتارنے اور خوخیانے سے واقعی اسی نسل کا ارتقاءلگتا ہے بس دم کی کسر ہے۔ اسی طرح انسانی معاشرے میں جانوروں سے نفسیات کا سلسلہ حضرت آدم کے دور سے ہی جاری و ساری ہے جب کہ ایک سیانے کوئے کے قابیل کو سکھایا کہ اپنے بھائی ہابیل کی لاش کو کندھے پر لئے لئے پھرنے کے بجائے اسے زمین کھود کر دفن کردے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے مگر اس میں بھی گراوٹ پیدا ہو گئی ہے۔ اب بھائی بھائی کو مار کر دفن تو کیا اسے چھاﺅں میں ڈالنے کا بھی روادار نہیں ہے۔ کہتے تھے کہ اپنا مار کر چھاﺅں میں ڈالتا ہے۔ اب تو اسے تپتی دھوپ میں چھوڑ کر سٹک جاتا ہے۔
سو انسانوں سے جانوروں کا رشتہ اور آگے بڑھانے میں آدم ثانی حضرت نوح نے جو کشتی بنائی اس سب انسانوں سے کہیں زیادہ جانوروں کو بچانے کا بندوبست کیا اور ہر جانور کا ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کراکر ان کی نسلوں کے لئے بقاءکا سامان کیا مگر بعد میں نسل انسانی نے ان جانوروں کے لئے جو برتاﺅ کیا اس میں بعض جانور سوچتے ہوں گے کہ کاش حضرت نوح انہیں بچانے کے بجائے اپنی بیوی اور بیٹے کی طرح طوفان کے حوالے کر دیتے تو آج ان کی یہ حالت نہ ہوتی۔ مگر یہ پوری دنیا کے جانوروں کا ”انداز فکر“ نہیں ہے یہ بھی ”سعادت“ ہمارے ہی معاشرے کو حاصل ہوئی ہے کہ ہر برائی کو ان بے زبانوں کے سر تھوپ دیتے ہیں اور اسے حقیر فقیر سمجھ کر اپنے ناکارہ افراد کو ان سے تشبیہہ دیتے ہیں یعنی مقرب میں مقرب اور معزز ”گدھے“ کو آج کی سپرپاور کی ایک طاقتور ترین جماعت کا باوقار نشان ہے جو سارید نیا کے انسانوں کی تمناﺅں کا مرکز ہے اور ان کے چڑیا گھروں کی زینت ہے۔ وہی معزز گدھا ہمارے معاشرے میں حماقت کا نشان بنا ہوا ہے اور اکثر باپوں کو اپنے بیٹوں کو ”گدھے کا بچہ“ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے۔ اور بقول شکسے کہ جب تم کسی کی طرف ایک انگلی اٹھاتے ہو تو باقی چار انگلیاں تمہاری طرف اشارہ کرتی ہیں گویا باپ چوگنا گدھا قرار پایا، یہی نہیں بلکہ اسے دھوبی کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے۔ جو اس غریب کی کمر پر ہم جیسوں کے غلیظ اتراﺅں لاد لاد کر لئے پھرتا ہے۔ یہ محنت کش مخلوق جو ایک طرح سے انسانوں کے لئے ایک نعمت ہے، خود اس کے لئے زحمت بنا دی گئی ہے۔ محنتی آدمی کو گدھے کی طرح محنت کرنے والے کا لقب مخصوص ہے۔ استاد اپنے کرتوتوں پر نظر ڈالنے کے بجائے شاگردوں کو اس نسل سے ملاتا ہے۔ گدھے کا گدھا ہی رہو گے۔ یہ بچارہ جو نبی کے حوالے سے ”خر عیسیٰ“ کی نسبت رکھتا ہے، اس کے مثل بھی پبھتی ایجاد کرلی ہے کہ ”میاں ایسے ہو جیسے خر عیسیٰ کتابیں لاد دی گئی ہوں۔ مطلب یہ کہ صرف تم پر کتابوں کا بوجھ بوجھ ہے علم ولم کچھ نہیں ہے۔ اب بتائیے کہ اس میں گدھے کا کیا قصور مگر اس انسانوں کے معاشرے میں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو دوسروں کے سر منڈنے کا رواج شروع سے ہی ہے۔ اب ایک مظلوم جس کی وفاداری اللہ والوں سے ثابت ہے یعنی اصحاب کہف کا کتا ”فطمیر“ جو ان اللہ والوں کے ساتھ غار میں چلا گیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہی جنت میں جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ وفاداری کا سمبل مالکوں سے محبت کرتا ہے۔ گھر سے نہیں، جہاں مالک جائے گا، یہ مالک کے ساتھ ساتھ جائے گا۔ یہ اللہ سے دعا مانگتا ہے کہ اے پروردگار تو میرے مالک کو دے تاکہ وہ مجھے دے جب کہ بلی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ گھر سے محبت کرتی ہے، مالک سے نہیں اور دعا کرتی ہے کہ مالک کی انکھیں پھوٹے اور وہ کھلائے۔ لہذا ابوہریرہ کی بلی کی قسمت میں جنت نہیں ہے مگر اس وفادار جانور کا ہمارے معاشرے میں کیا مقام ہے؟ اس کے متعلق کیا کیا لایعنی مثالیں ہیں مثلاً سگ باش، سر اور خردباش ”یعنی کتا بنا دے چھوٹا بھائی نہ بنا“ یعنی جو سلوک کتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے اس سے پناہ مانگی جارہی ہے۔ یہ مخلوق جو اپنے مالک سے محبت کے حوالے سے ضرب مثل ہے اسے بھی لوگوں نے غلط معنی پہنچا دیئے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ آدمی سے وفاداری کی اُمید نہ رکھو کیونکہ وفاداری تو کتے کی خلصت ہے۔ لیجئے صاحب یہ خوبی بھی بے چارے کی خامی بن گئی۔ زیادہ بولنے والوں کو طعنہ کہ ”کتے کی طرح بھونکتے رہتے ہیں“ یا پھر ”دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا“ آدمیوں نے اپنی ساری کامیوں کو اس بے ضرر جانور کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ باولے کتے کے کاٹے کا علاج 14 انجکشن پیٹ میں لگنے سے ہوتا ہے۔ ذرا غور کرلیں کہ بعض انسان کے کاٹے کا علاج تو چودہ سو انجکشنوں سے بھی نہیں ہوتا۔
ہمارے معاشرے میں یہ جانور اگر ایک طرف انسانوں کی طرح ہے، وہیں یہ دولت و ثروت اور امارات کے شان بھی ہیں ایک ایک کتا لاکھوں لاکھوں میں آتا ہے اور عالیشان محلوں میں ایئرکنڈیشن کمروں میں فروش ہوتے ہیں اور بقول جناب انور مقصود اسلام آباد کے گھر میں ”کتا“ ہے۔ ان کے اس جملے پر لوگ معنی خیز ہنسی ہنستے ہیں، پتہ نہیں وہ کیا سمجھے مگر یہ طے ہے کہ اعلیٰ نسل کے ”کتے“ اکثر کم اصل افراد کے پاس دیکھے گئے ہیں۔ یہ مخلوق جس کی تعریف و توصیف میں صفحہ سے صفحے سیاہ کئے گئے ہیں اگر ایک طرف ہمارے یہاں حقارت سے دیکھے جاتے ہیں تو وہی ان کے تذکرے داستانوں میں جگمگا رہے ہیں۔ خواجہ سگ پرست کا قصہ کہ اس کے بھائیوں نے اس کے ساتھ دغا کی مگر اس کے وفادار کتے نے اس کی زندگی بچائی جسے اس نے طلائی زنجیر پہنا کر احسان کا بدلہ دیا اور پھر رومانی داستانوں میں سگ لیلیٰ کا تذکرہ کس شدومد سے کیا گیا ہے کہ یہاں مجنوں اپنے محبوبہ کے کتے سے راز و نیاز کی باتیں کرتے تھے۔ مگر اس سگ گزیدہ سوسائٹی میں اس سے متعلق منفی باتیں گڑھ لی گئی ہیں۔ مثلاً کتنے کی دم بارہ سال کے بعد بھی ٹیڑھی کی ٹیڑھی، سو حضرت انسان اپنی طرف نظر نہیں کرتے کہ ان کی کجی تو نسلوں سے چلی آرہی اس کو وہ سیدھا کیوں نہیں کرتے ان کی ٹیڑھ پن سے آج پوری نسل انسانی کو خطرات ہیں۔ کیا آج تک کتنے کی ٹیڑھی دم سے اس کے ہم جنس کو کوئی ضرر پہنچا ہے؟ یا یہ کہ اپنے مقدرکی خرابی کو بھی اسی وفادار فطرت سے منسلک کردیا گیا ہے۔
کتے کی دم، ہمارا مقدر، مزاج یار
اس کو جہاں میں کوئی بھی سیدھا نہ کرسکا
اب آپ بتائیں کہ اگر آپ کا مقدر پھوٹا ہوا ہے آپ کا بدمزاج یار ریلوکنٹ نہیں کراتا تو اس میں کتے کی دم کہاں سے بیچ میں آگئی۔ دراصل حضرت انسان اپنی ہر غلطی اور کوتاہی کا ذمہ دار فٹا فٹ دوسرے کو قرار دے کر بیچ میں سے نکل جاتا ہے۔ یہ ساری برائیاں جو محض اس حیوان ناطق نے خود اپنے ہاتھوں سے پیدا کیں انہیں یہ بے زبانوں کے سر منڈ کر خود کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر خود اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتا۔ جیسے کہ بقول شکسے
کار بد کو خود کرے، لعنت کرے شیطان پر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں