بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 143

موجودہ عمل نے عمران خان کی تحریک کو جِلا بخش دی

عمران خان حکومت جو وعدے اور دعوے کرکے آئی تھی اُن پر عمل درآمد تو نہ ہو سکا البتہ یہ بھی کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملکی اداروں نے حکومت سے تعاون نہیں کیا۔ بیوروکریسی نے مکمل طور پر حکومت کو فیل کرنے کی کوشش کی جب کہ عدلیہ نے بھی انصاف کی فراہمی کے علاوہ سب کچھ کیا۔ سونے پہ سہاگہ عمران خان کے غیر سنجیدہ مشیروں نے رہی سہی کسر پوری کردی اور حکومت کے پاس عوام کے پاس جانے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہوئی کہ عمران خان نے اپنی برطرفی آتی دیکھ کر خط والے معاملہ کو جو کہ بہرحال کسی اور صورت میں دھمکی آمیز تھا، کیش کرلیا اور عوام کو یہ بتانے میں کامیاب ہوگئے کہ ہمیں امریکہ کی غلامی قبول نہیں۔ بروقت عوام کی دکھتی رگ پرہاتھ رکھنے کی وجہ سے عمران خان کو پوری دنیا میں پذیرائی مل رہی ہے۔
دوسری جانب گزشتہ تین سالوں میں آصف زرداری، نواز شریف اور سابقہ دور کے بارے میں جس قدر منفی پروپیگنڈہ کیا گیا اور پھر اچانک انہی لوگوں کو واپس اقتدار میں لانا اور وہ بھی نہایت بھونڈے انداز میں جس کے سبب عوام کے سامنے بہت سے معاملات اور بہت سے لوگ ننگے ہو کر سامنے آگئے جو کہ عوام میں اشتعمال کا باعث بنا۔ گزشتہ ہفتہ عوام نہایت ذہنی کرب سے گزری اور پاکستان کے اداروں نے ثابت کردیا کہ وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر کھیلا جانے والا کھیل گندہ ثابت ہونے میں کوئی کسر نہیں رہی۔ عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان جو کہ ساری زندگی وکیل کی حیثیت سے جھوٹ بول کر جج بن جاتے ہیں نے اپنی اصلیت بھی دکھا دی۔ آج جو فوج کو گالیاں دیتے تھے، بات اپنے مفاد کی آئی تو فوج کے ذریعہ تبدیلی بھی قبول کرلی۔ یہاں معاملہ امریکہ کے خط کا نہیں بلکہ باہمی جنگ اس حد تک جا چکی ہے کہ دونوں فریق اپنے اقتدار کی بازی جیتنے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہیں۔ امریکہ کا خط ہو یا نہ ہو۔ امریکہ کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ وہ یہ کھیل دنیا بھر میں کھیلتا ہے اور یہ نئی بات نہیں مگر ہمارے سیاسی قائدین کو دنیا کے حالات دیکھتے ہوئے ملکی سلامتی کی خاطر ایک صفحہ پر بیٹھ کر درست فیصلہ کرنا چاہئے کہ اگر سیاسی انتشار بڑھا تو نہ کسی کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا اور پاکستان جو خود تقریباً قلاش ہو چکا ہے، اسے زمین بوس ہونے سے بھی کوئی نہیں روک سکتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں