عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 526

میری نظر میں

پاکستان میں اقتدار کی سیاست اور عوامی فلاح کی سیاست کی چپقلش اور ٹکراﺅ جاری ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد مملکت خداداد کے باسیوں کو اس طرح کی حکومت نصیب ہوئی ہے جس کے بارے میں کوئی اندھا اور ان پڑھ بھی اٹھ کر کہہ سکتا ہے یہ پہلی حکومت ہے جسے اقتدار کی نہیں بلکہ ملک اور اس کے رہنے والوں کی مشکلات اور ان کے حل کی فکر لگی ہوئی ہے اس لئے حکومت نے آتے ہی اتنے سخت فیصلے کرلئے کہ پورے نظام میں ایک لرزاں طاری ہو چکا ہے، کمزور سے لے کر طاقتور ترین اور ان پڑھ سے لے کر پڑھے لکھے تک کے سب ہی اس کی زد میں آگئے۔ پورا ملک مہنگائی کی لپیٹ میں آگیا۔ سبسڈی کی شکل میں دیئے جانے والے بیساکھیوں کے ہٹائے جانے سے لنگڑاتی پاکستانی معیشت سامنے آگئی۔ اتنی کمزور معیشت کے محض اخباری بیانوں سے اسٹاک ایکسچینج کے دو ہزار سے زائد پوائنٹس گر جاتے ہیں اور ایک پوائنٹ ساڑھے تین کروڑ روپے کا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سابقہ اقتدار کے لئے سیاست کرنے والی حکومتوں نے پاکستان کی معیشت کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا تھا کہ وہ اپنے پورے ادوار میں معیشت کی تباہ حالی کو استرکاری سے چلاتے ہوئے مہنگائی کو مصنوعی طریقے سے روک کر قومی خزانے پر بوجھ بڑھاتے رہے اور اس طرح سے اقتدار کے بھوکے سیاستدان میڈیا اور ملکی عوام کی نظروں میں ہیرو اور پاکستان تیزی کے ساتھ زیرو بنتا گیا۔ موجودہ حکومت جس کے بارے میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ اقتدار کی بھوکی نہیں ہے، وہ ملک اور اس کے رہنے والوں کے لئے کچھ کرنے کا عزم لے کر آئی ہے لیکن اس وقت آئی ایم ایف کی قیادت میں اقتدار کی بھوکی ساری پارٹیاں اس طرح سے موجودہ حکومت پر ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہیں جس طرح سے گلی سے گزرنے والے فقیر پر آوارہ کتے بھونکنا شروع کردیتے ہیں اس لئے کہ موجودہ حکومت کے ریورس گیئر لگانے سے اقتدار کی بھوکی سیاسی پارٹیاں اور خود آئی ایم ایف بُری طرح سے بے نقاب ہو رہی ہے۔ ایک عجیب طرح کی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان پر ان کا قرض باقی رہے یا پھر پاکستان اس قابل ہی نہ ہو کہ وہ آئی ایم ایف کا قرضہ اتار سکے۔ کیونکہ پاکستان کے مقروض رہنے سے انہیں ان کی خودمختاری سے کھلواڑ کرنے میں آسانی ہوتی ہے جب کہ موجودہ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح سے بھی قوم یہ مشکل قت گزار کر قرض کی لعنت سے جان چھڑوالے۔
آئی ایم ایف اور اقتدار کی بھوکی سیاسی پارٹیوں کا ایجنڈا ایک ہی ہے، دونوں پاکستان میں اس طرح کی کسی بھی حکومت کو برداشت نہیں کر سکتے جو اس ملک اور اس کے رہنے والوں کی خیرخواہ ہو۔ اس لئے آئی ایم ایف نے قرض دینے سے پہلے ہی اپنی منظور نظر ٹیم وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک میں بٹھا دی ہے اور اپنے مرضی سے بجٹ بنا کر مہنگائی کا طوفان لارہی ہے تاکہ اقتدار کی بھوکی سیاسی پارٹیوں کے پاس موجودہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا ایشو آجائے اگر بغور نظر دیکھا جائے تو اقتدار کی بھوکی سیاسی پارٹیاں اور ان کی وکالت کرنے والا پاکستانی میڈیا یک زبان ہو کر آئی ایم ایف اس کے وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کے علاوہ ان سے لئے گئے قرضے پر تنقید کررہا ہے اور ان کی تان مہنگائی پر جا کر ٹوٹتی ہے تاکہ ملکی عوام میں موجودہ حکومت کے خلاف نفرت اور بے چینی پھیلا دی جائے اور موجودہ حکومت جو کچھ قرض کے خاتمے کے خلاف کرنے جارہی ہے اسے نا کرنے دیا جائے۔ غرض موجودہ حکومت کے کاموں میں روڑے اٹکانے کا مقصد ملک اور قوم کا نقصان اور آئی ایم ایف سمیت ملک دشمنوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ اقتدار کی بھوکی سیاسی پارٹیاں ملک اور قوم کے ساتھ اتنا بڑا ظلم محض اپنے کرپٹ اور لٹیرے لیڈرشپ کو قانون کے شکنجے سے بچانے کے لئے کررہی ہے۔ وہ اپنے لیڈرشپ کو سزا سے بچانے کے لئے پورے ملک کو داﺅ پر لگا رہے ہیں۔ دُکھ اس بات کا ہے پوری پاکستانی میڈیا کو اس تلخ حقیقت کا علم ہے کہ ملک کو اس نہج پر پہنچانے کے ذمہ دار کون ہیں۔۔۔؟ لیکن اس کے باوجود وہ تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں اور ان ہی لوگوں کی وکالت کررہے ہیں جو ملک کو قرضوں میں دھکیلنے اور اس ہوشربا مہنگائی کے ذمہ دار ہیں انہیں اس بات کا بھی ادراک ہے کہ موجودہ حکومت درست سمت میں ملک کو لے جارہی ہے جس سے ملک سے کرپشن کی لعنت کا خاتمہ ہوگا اور آئی ایم ایف کے اجارہ داری سے بھی کسی حد تک جان چھوٹ جائے گی لیکن یہ سب جاننے کے باوجود نہ تو ان کا قلم اس جانب حرکت کرتا ہے اور نہ ہی ان کا کیمرہ اس کی عکس بندی کرتا ہے ان کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں جو انہیں ان کے فرائض ان کے ضمیر کے مطابق ادا کرنے سے روکتی ہے اور اس طرح سے ملکی عوام میڈیا کی سفاکی یا بے حسی سے وہ حقیقت جاننے سے محروم ہو جاتے ہیں جو سچائی پر مبنی ہیں۔ یہ وہ صورت حال ہے جس سے وطن عزیز ان دنوں دوچار ہے۔ مہنگائی بڑھ چکی ہے، ملکی عوام پریشان ہیں، ان کی چیخیں نکل رہی ہیں، وہ آسانی کے ساتھ اقتدار کی بھوکی سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں ہائی جیک ہو رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کو چاہئے کہ اس بڑھتی ہوئی مہنگائی سے عوام کو بچان ے کے لئے وہ کسی دوسری شکل سے ریلیف دیں ورنہ گیند ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ دوسرا ملکی کرنسی اور غیر ملکی کرنسی کا کنٹرول کسی بھی صورت میں ملک دشمنوں کے ہاتھ نہیں جانا چاہئے۔ یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ڈالروں کے پاکستانی روپے کے مقابلے میں قیمت اسٹیٹ بینک طے کرے گی اس لئے کہ سب جانتے ہیں کہ گورنر اسٹیٹ بینک کون ہے؟ اگر گورنر اسٹیٹ بینک سب خود اپنی مرضی سے ہی طے کریں گے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ یہ آئی ایم ایف طے کررہی ہے اس لئے وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ اسٹیٹ بینک کے گورنر اور وزارت خانہ پر ماہرین معاشیات کی ٹیم کے ذریعے چیک اینڈ بیلنس رکھے ورنہ ان کی قرض اُتارنے کی ساری کوششیں رائیگاں چلی جائیں گی۔ وزیر اعظم کو سمجھ لینا چاہئے کہ ان کا مقابلہ صرف اقتدار کی بھوکی سیاسی پارٹیوں سے نہیں بلکہ پاکستان کے تمام دشمنوں کے ساتھ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں