نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 147

میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو!

ٹرانسپرنسی نے بہت ساری سازشیں، چالاکیاں اور مکاریاں بے نقاب کرلی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان دو نمبر سیاستانوں، بیوروکریٹس اور صحافیوں کو ضرورت سے زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ جو بڑے مہذب، عزت دار اور محب الوطن بنے بیٹھے تھے، اب ان کا سارا کٹھا چٹھا کھل کر سامنے آگیا۔ سوشل میڈیا نے ہمارے لوگوں کو جتنی آگاہی دی ہی اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، مین اسٹریم میڈیا پر اس وقت سوشل میڈیا بہت ہی بُری طرح سے غالب آچکا ہے، جس کا زندہ اور منہ بولتا ثبوت تحریک انصاف کے ہر جلسے کا ایک دوسرے پر سبقت لے جانا ہے حالانکہ ملک کی مین اسٹریم میڈیا با جماعت ہو کر جس طرح سے عمران خان اور اس کے پارٹی کے خلاف ڈس انفارمیشن کررہی ہے، وہ پوری قوم کے سامنے ہے لیکن اس کے باوجود عمران خان اور ان کی پارٹی کا گراف دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا ہے جس میں قدرت کی مہربانی تو شامل ہے لیکن سوشل میڈیا بھی اس میں اپنا حصہ دیانتداری سے ڈال رہا ہے۔ اب تو یہ بات روز روشن کی طرح سے عیاں ہو چکی ہے کہ پاکستان میں رجیم تبدیل کرنے کے لئے سازش کی گئی تھی اور اسی سازش کے نتیجے میں یہ تحریک عدم اعتماد لائی گئی۔
ہمارے بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ کوئی سازش نہیں ہوئی بلکہ جمہوری طریقے سے ہی عمران خان کی حکومت کو گرائی گئی ہے بظاہر تو یہ کہنا اسی طرح سے درست ہے جس طرح سے کسی لائسنس والے پستول سے کسی کو قتل کردیا جائے۔
کیا اس طرح کا قتل، قتل نہیں ہوتا، بالکل ہوتا ہے، تو کیا جمہوریت کے لبادے میں کوئی غلط کام یا کوئی سازش نہیں کی جا سکتی، یقیناً کی جا سکتی ہے، جس ملک نے یہ ساری سازش کی ہے کیا وہ عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لئے کوئی ڈرون حملہ تو پارلیمنٹ پر نہیں کرتا، وہ وہی کرتا جو اس نے کیا اور یہ سب کچھ اس کے لئے انتہائی آسان تھا، اس لئے کہ غیر ملکی سوداگروں کے لئے پاکستان میں سب سے آسان اور منافع بخش تجارت سیاستدانوں، صحافیوں اور بیوروکریٹس کا ضمیر خریدنا ہے۔ اس لئے انہوں نے وہی حربہ اختیار کرکے اپنا ٹارگٹ پورا کر لیا کس طرح سے پاکستانی عدلیہ کے چونکا دینے والے نظارے پوری قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لئی کہ پاکستان کی عدلیہ کا دوہرا معیار کس طرح سے کھل کر سامنے آیا کہ کسی کے لئے تو عدالتیں رات بارہ بجے بھی کھول دی جاتی ہیں اور کسی کے لئے دن کی روشنی میں دفتری اوقات کے خاتمے کا اعلان کرکے انہیں چلتا کردیا جاتا ہے۔ یہ وہ عدالتیں کررہی ہیں جو خود کو 24 گھنٹی والی عدالتیں کہلواتی ہیں اور ان سے انصاف اور اعلیٰ کارکردگی کا معیار عالمی دنیا اتنی نچلی ترین سطح پر ہے کہ اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی سر شرم سے جھک جاتا ہے مگر انصاف کی کرسیوں پر براجمان ججز کو اس کا فہم و ادراک نہیں۔
عدلیہ کا احترام دلوں سے منصفانہ فیصلوں کے نتیجے میں ہی ہوتا ہے، سزاﺅں کے خوف سے نہیں۔ جمہوری حکومت پر غیر ملکی شب خون پوری قوم نے دیکھ لیا کہ کس طرح سے ملک کے جن لٹیرے سیاستدانوں کو عمران خان کی حکومت نے این آر او دینے سے انکار کر دیا تھا، ان ہی پارٹیوں کو سازش کے نتیجے میں برسر اقتدار لا کر ایک طرح سے این آر او دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
اقتدار میں آتے ہی اپنے خلاف ایمانداری اور دیانتداری سے تفتیش کرنے والے ایف آئی اے اور نیب کے افسرں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ سارے لٹیرے سیاستدانوں کے نام ایگزسٹ کنٹرول لسٹ سے نکلوا کر انہیں بیرون ملک فرار کروانے کی سہولت فراہم کردی گئی ہے۔ ملک کے سلامتی کے اداروں پر غیر ملکیوں کے خوشنودی کے لئے ہر وقت بھونکنے والوں کو وزارتیں دی گئی اور اب انہیں سرکاری خرچے پر عمرے پر لے جایا جا رہا ہے جن دونوں باپ بیٹوں پر 16 ارب کی منی لانڈرنگ کیس میں فرد جرم لگنے جارہی تھی وہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بن گئے مگر ہماری عدلیہ کو یہ نظر نہیں آرہا ہے۔ وہ جلسوں میں موجود لوگوں کو تو گن لیتی ہے مگر اتنے بھیانک و شرمناک جرائم انہیں بالکل بھی دکھائی نہیں دیتے، پھر بھی وہ قوم سے اپنی عزت و احترام کی توقع رکھتے ہیں، ملک کی حالت بالکل اسی طرح سے کردی گئی ہے جس کی جانب آغا شورش کاشمیری نے اس شعر کی صورت میں قوم کو آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں