صحافی کوئی مقدس گائے نہیں کہ انہیں قانون کے تابع نہ لایا جائے۔ جھوٹی خبریں چلانے والے صحافیوں اور ایسے چینل کے مالکان کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہوئے جرمانہ کی سزا کی قانون سازی کے خلاف صحافیوں کا احتجاج مضحکہ خیز اور خود کو قانون سے بالاتر ظاہر کرنا ہے۔ اس طرح کے احتجاج کی کسی بھی مہذب جمہوری معاشرے میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ صحافیوں کا احتجاج یہ بھی ظاہر کررہا ہے کہ وہ جھوٹی خبریں چلاتے ہیں اور چلاتے رہیں گے، انہیں اس پر کوئی شرمندگی یا ندامت نہیں۔
میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ اس طرح کے قانون سازی پر صحافیوں یا چینل مالکان کو اعتراض کیا ہے؟ اس احتجاج کے ذریعے تو وہ خود جھوٹی اور بے بنیاد خبریں چلانے والے صحافی اور چینل مالکان ثابت کررہے ہیں، حقیقی معنوں میں جو ورکنگ جرنلسٹ ہیں جو خود محنت کرکے کھوج لگا کر خبریں تلاش کرکے لاتے ہیں ان کے پاس تو ان خبروں میں کئے جانے والے انکشافات اور دعوﺅں کی دستاویزات تک ہوتی ہیں جو وہ اخبارات میں شائع بھی کرتے ہیں اور چینل پر نشر بھی کرتے ہیں اور اپنی خبروں کی سچائی کا کریڈٹ بھی لیتے ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ اپنی جھوٹی یا بے بنیاد خبر پر شرمندگی کے بجائے اس پر ڈھٹائی کے ساتھ مظاہرہ کیا جائے کہ ہم تو جھوٹ بھی بولتے رہیں گے، جھوٹی خبریں بھی چلاتے رہیں گے اور ہمارے خلاف کسی بھی طرح کی کوئی قانونی کارروائی بھی نہ کی جائے ورنہ ہم حکومت کے خلاف احتجاج کریں گے کہ آزادی صحافت خطرے میں پڑ گئی ہے۔
میرے ذاتی خیال میں حکومت وقت کے خلاف صحافیوں کے اس احتجاج کی کوئی قانونی یا اخلاقی جواز نہیں، میں کوئی عمران خان کا ترجمان نہیں لیکن جو کچھ صحافی کررہے ہیں اس سے پاکستان کی صحافت کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے کہ پاکستان کی صحافت کس طرح سے مدد پدر آزاد اور بے لگام ہو گئی ہے کہ انہیں اخلاقی قدروں کا بھی پاس نہیں رہا، پوری دنیا میں زرد صحافت یا بلیک میلنگ کو کسی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جا رہا ہے اور اس میں پاکستان کی صحافت کا معیار بھی سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کی صحافت احساس برتری کی خطرناک مرض میں مبتلا ہو چکی ہے جو سوال پوچھنے کو تو اپنا حق خیال کرتی ہے مگر جواب دینے کو اپنی رسوائی۔۔۔ یعنی وہ کسی بھی فورم پر خود کو جوابدہ نہیں خیال کرتی، چاہے وہ عدالتی فورم ہو، ایف بی آر کا فورم ہو یا کوئی دوسرا فورم۔۔۔ وہ خود کو سب سے افضل یعنی نوری مخلوق خیال کرتی ہے اور یہ ایک بہت ہی خطرناک بیماری ہے۔ اس بیماری میں مبتلا لوگوں کا علاج ممکن نہیں، اس لئے کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتے اور نہ ہی وہ اپنی اصلاح کی طرف پلٹتے ہیں۔ ان کے نزدیک انہوں نے جو کچھ کہہ دیا وہی حرف آخر ہے جس کا زندہ ثبوت یہ احتجاج ہے جو وہ عمران خان کی حکومت کے خلاف قانون سازی کرنا کسی فرد کا کام نہیں جمہوریت کا کام ہے اور یہ ایک جمہوری عمل ہے اس طرح سے صحافیوں کا یہ احتجاج عمران خان یا ان کی حکومت کے خلاف نہیں بلکہ جمہوریت کے خلاف ہے جس سے یہ ظاہر ہوا کہ پاکستانی صحافت جمہوریت کے خلاف ہو گئی اور وہ اپنے خلاف کسی بھی طرح کی قانون سازی کو تسلیم نہیں کریں گے اور احتجاج کرکے حکومت کو مجبور کردیں گے کہ وہ یہ بل واپس لے۔ اس طرح سے ایک طرح سے صحافی خود ایک طرف تو احتجاج کرنے کے جمہوری حق کو تو استعمال کررہے ہیں لیکن دوسری جانب قانون سازی کے اس جمہوری عمل کو تسلیم کرنے کے خلاف ہے جو ان پر ان کے جھوٹ پر ان کے بلیک میلنگ پر ان کے زرد صحافت پر قدغن لگا کر انہیں جواب دہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
صحافیوں کے اس طرح سے جمہوریت کے خلاف احتجاج کرنے سے انہیں پاکستانی عوام کے سامنے بھی نہ صرف ایک تماشہ بنا لیا ہے بلکہ ان کی حقیقت بھی قوم پر واضح کردی کہ کس طرح سے جمہوریت کی راگ الاپنے اور آزادی اظہار رائے کے ڈول پیٹنے والے پاکستانی صحافت کی نظروں میں خود جمہوریت اور ان کی قدروں کی کیا اہمیت ہے؟
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے کہ حکومت کو اس طرح کے قانون سازی کی ضرورت یا نوبت کیوں پیش آئی؟ کیا حکومت اس طرح کی قانون سازی کرکے پاکستان کے آزاد میڈیا کو کنٹرول میں لانے کی کوشش کررہی ہے، انہیں اپنے تابع یعنی اپنے حسب منشاءاستعمال کرنے کی تیاری کررہی ہے، وہ بھی خاص طور سے سوشل میڈیا یعنی یوٹیوب چینلز کو۔۔۔ تو پھر میں بھی احتجاج کرنے والے صحافیوں میں شامل ہوں۔ میں بھی حکومت کے اس قانون سازی کو کالے قانون کا نام دے کر اس کی بھرپور مخالفت کروں گا۔ حکومت خاص طور سے عمران خان اور ان کی وزارت اطلاعات کو اس سلسلے میں وضاحت کرنا چاہئے کہ وہ جس طرح سے کہتے ہیں کہ وہ یہ قانون صرف جھوٹی اور بے بنیاد خبروں کی اشاعت یا اسے نشر کرنے سے روکنے کے لئے کررہے ہیں یا اس کے پس پردہ حکومتی عزائم وہ ہیں جو صحافیوں کے رہنما کہہ رہے ہیں، کوئی بھی صحافی جان بوجھ کر کوئی جھوٹی یا بے بنیاد خبر چھاپ کر یا نشر کرکے خود اپنے معیار کو گرانے کی غلطی نہیں کرتا بعض اوقات غیر ارادی طور پر رابطہ کے فقدان کی وجہ سے بے بنیاد اطلاعات خبروں کی صورت اختیار کر جاتی ہے لیکن اسے جواز بنا کر صحافیوں اور اخبارات یا چینلز کے خلاف کارروائی کرنا درست نہیں۔ حکومت کا یہ قدم آزادی اظہار رائے پر حملہ کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ حکومت کو اس قانون سازی سے قبل میڈیا مالکان اور ان کے یونینز کو اعتماد میں لینا چاہئے تھا ایسا نہ کرنا دال میں کچھ کالا ہونے کی نشاندہی کررہا ہے۔
