عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 105

میں تو آزاد ہوں میرے پاکستان؟

آج کا یہ کالم صرف اور صرف اپنے احساسات اور جذبات کو لفظوں میں سمونے کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ قارئین میں جب سے پردیسی بنا ہوا ہوں یعنی جب سے میں اپنے وطن سے دور دیار غیر میں آباد ہوا ہوں اس وقت سے جب کبھی بھی اپنوں سے فون پر رابطہ ہوا کرتا یا کبھی کبھار سالوں میں اپنے وطن جایا کرتا تھا تو ہمیشہ سے ایک ہی احساس ہوا کرتا تھا کہ سب کچھ میرے پاس ہے بھی اور کچھ بھی نہیں۔۔۔ وہ کچھ بھی نہیں میں صرف اپنائیت ایسی ہے کہ جس کی طلب ہم دیار غیر والوں کو ہمیشہ ہی رہتی ہے اس کی کمی اس کی خلش وہ ہمیشہ اپنے دل میں محسوس کرتا رہتا ہے لیکن اس کا اظہار وہ بعض اوقات چاہنے کے باوجود نہیں کر پاتا۔ ہمیں ہماری اصلیت ان دوسروں ملکوں میں ساری زندگی گزارنے کے بعد بھی گملے کے پودے سے زیادہ نہیں لگتی کہ جن کی جڑیں گملے کے اندر ہی تک رہتی ہے لیکن پچھلے ایک سال سے وطن عزیز میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے دیکھ کر جہاں دل خون کے آنسو رو رہا ہے وہیں میرے یہ تمام تر خیالات اور احساسات و جذبات ڈھیر ہو کر بہہ گئے اور اب اپنے وطن کو چھوڑنے اور دیار غیر میں آکر رہنے پر کوئی پچھتاوا، دکھ، افسوس یا پھر کوئی شرمندگی نہیں ہو رہی ہے بلکہ اب تو ایک خوشی کا احساس ہو رہا ہے کہ میں نے صحیح وقت پر ایک بہت ہی صحیح فیصلہ کیا تھا یا پھر اس میں میرا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ تو اوپر والے کی ہی ساری مہربانی ہے، پہلے میں خود کو دیار غیر میں ایک قیدی محسوس کیا کرتا تھا اور پاکستان میں رہنے والے عزیز و اقارب اور دوستوں کو خوش نصیب اور آزاد خیال کہا کرتا تھا لیکن موجودہ صورتحال کے تناظر میں ساری صورتحال ہی پلٹ گئی یعنی اب مجھے پاکستان میں رہنے والے قابل رحم نظر آرہے ہیں اور ایسے لگ رہا ہے کہ وہ محض پاکستان میں رہنے کی سزا بھگت رہے ہیں ان کی حالت جزیرہ انڈیماں کالا پانی والے قیدیوں جیسی بنا دی گئی ہے جنہیں ناکردہ خطاﺅں کی سزا دی جارہی ہے جہاں انسانی حقوق پر بات کرنا اس پر آواز اٹھانا تک جرم بنا دیا گیا ہے تو پھر انسانی حقوق کی پاسداری تو دیوانے کا خواب ہی خیال کیا جا سکے گا جہاں کی بڑی عدالتوں تک کو انصاف کے مطابق فیصلے کرنے کی جرات اور ہمت نہ ہو تو پھر وہاں سے ظالم اور اس کے ظلم اور جس کے لاٹھی اس کی بھینس کے رسوائے زمانہ طریقہ کار کا خاتمہ بھی خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گا اس طرح کے ملک اور اس طرح کے معاشرے میں رہنے والوں کو قیدی اور پر کٹے پرندوں سے تشبیہہ نہیں دی جائے گی تو اور کیا کہا جائے گا جنہیں قید تو نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی پنجرے میں رکھا گیا ہے بلکہ ان کے پر ہی کاٹ دیئے گئے ہیں اب انہیں پنجرے میں رکھو یا آزاد چھوڑ دو، ان میں اڑنے یا پھر بغاوت کرنے کی کوئی صلاحیت، ہمت اور جرات باقی نہیں رہی، لوگوں کو اس طرح سے ڈرایا اور دھمکا دیا گیا ہے کہ ان کے ذہنوں سے آزادی کا خیال ہی کھرچ کر نکال دیا گیا ہے۔
ذرائع ابلاغ میڈیا جو اسی طرح کے ظلم کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی معاشرتی زندگی میں امید کی کرن کا کردار ادا کرتا ہے مگر افسوس کہ ملک میں ظلم و نا انصافی کا ننگا ڈانس کروانے والوں نے سب سے پہلے ملکی میڈیا کا گلا گھونٹ کر انہیں ایک اس طرح کی زندہ لاش بنا دیا ہے جو نہ زندوں میں ہے اور نہ ہی مردوں میں، وہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود اندھے بنے ہوئے ہیں، سب کچھ سننے کے بعد بھی بہرے بنے ہوئے ہیں بلکہ انہیں تو ملکی عوام کو گمراہ کرنے کے کام میں استعمال کیا جارہا ہے، انہیں جھوٹ سنایا جارہا ہے اور سچائی کو ان کی نگاہوں سے اوجھل کیا جارہا ہے، ان کے سامنے ظالموں کو مظلوم اور مظلوموں کو ظالم کے طور پر دکھایا جارہا ہے، پاکستانی صحافت اس وقت اپنے انتہائی بدبودار شکل میں پاکستان میں اپنا کردار ہے ان سے اس طرح کا کردار ادا کرنے والے اب تک پاکستانی عوام کو 70 اور 80 کے علاوہ 90 کی دہائی کے عوام خیال کرتے ہیں، وہ یہ بھول گئے کہ پاکستانی عوام اب بہت ہی زیادہ باشعور ہو گئے ہیں، وہ ملکی میڈیا کے سحر سے نکل چکے ہیں، وہ اصلیت جان چکے ہیں، خون کے بت پاش پاش ہو چکے ہیں، اسی وجہ سے طاقت ور لوگ اب انہی باتوں سے بہلانے میں ناکامی کے بعد انہیں قیدی بنانے کی کوشش کررہے ہیں ان کے سارے کے سارے انسانی حقوق سلب کرلئے گئے ہیں۔ آزادی اظہار رائے کو سنگین جرم بنا دیا گیا ہے۔ سچ بولنے والوں کو عمران ریاض کی طرح سے غائب کرادیا جاتا ہے یا پھر جیل پہنچا دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی اس طرح کی صورتحال کو دیکھ کر اب مجھے اور ان تمام لوگوں کو جو بیرون ملک رہ رہے ہیں، اپنی حقیقی آزادی کا احساس ہو رہا ہے اور اپنے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کے ایک بظاہر آزاد ملک میں بھی ناکردہ خطاﺅں کے عوض قیدیوں کی طرح سے زندگیاں گزارنے کا دکھ ہو رہا ہے۔ دنیا کہاں جارہی ہے اور پاکستانی حکمران اب تک لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں