پاکستان اور 8 فروری 2024ءانتخابات 175

نئے صوبے کیوں نہیں؟

دنیا کے تمام ممالک میں ان کے شہریوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی ذمہ داری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس انتظام بہتر سے بہتر طور پر انجام دینے کی کوشش حکومتیں کرتی ہیں۔ حکومتوں کا یہ طریقہ کار بالکل نچلے درجہ کی انتظامی اکائی سے شروع ہو کر بتدریج اضلاع سے بڑھ کر صوبوں تک پہنچا ہوا وفاق پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ یہ انتظامی یونٹ محدود آبادی سے متعلق آسانیوں اور اصول و ضوابط کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں تاکہ شہریوں کو اپنے حدود و اربعہ میں ہی تمام سہولتیں فراہم جس میں قانون کا نفاذ، بنیادی طبی سہولت، تعلیم، بجلی، پانی، ذرائع آمدورفت یعنی انسانی زندگی سے منسلک تمام شعبہ جات کے امور آسانی کے ساتھ انجام دیئے جاسکیں اور اس علاقے کے رہنے والوں کو کسی اور طرف کا رخ نہ کرنا پڑے پھر انہی مختصر آبادیوں سے ہی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز بھی ہوتا ہے انہی محدود آبادیوں سے بڑھ کر سیاستدان وسیع سیاسی میدان میں اترتے ہیں اور وفاقی وزراءوزیر اعظم اور صدر کے منصب تک پہنچتے ہیں۔
اضلاع کے مجموعے صوبوں کو مکمل کرتے ہیں اور صوبے پھر ایک مکمل ریاست کی شکل اختیار کرتے ہیں۔
برصغیر کی تقسیم کے وقت پاکستان کے حصے میں جو علاقے آئے ان میں جغرافیائی طور پر فاصلے تھے ایک حصہ مغربی پاکستان اور دوسرا مشرقی پاکستان کہلایا۔ دونوں حصوں میں صوبوں کی شکل میں انتظامی ڈھانچے موجود تھے۔ تقسیم کے فوراً بعد ہم سے الگ ہونے والے ہندوستان میں قوم پرستی کو فروغ دینے کے لئے سیاسی نظام پر خصوصی توجہ دی گئی اور سیاست کے بنیادی اصولوں اور فلسفہ پر کام کیا گیا جس کے نتیجے میں وہاں نہ صرف اداروں اور حکومتوں کے درمیان اختیارات میں توازن قائم ہوا بلکہ سیاسی استحکام دیکھنے میں آیا۔ بھارت میں کئی بڑے صوبوں کو چھوٹے انتظامی یونٹوں یا صوبوں میں تقسیم کرکے نہ صرف حکومتی کارکردگی بہتر بنانے کا عمل ہوا بلکہ عام لوگوں اور حکومت کے مسائل اور اخراجات میں کمی آئی۔ ہندوستان میں مستقل طور پر ایک کمیشن قائم کردیا گیا ہے جو بڑے صوبوں میں انتظامی مسائل کا جائزہ لے کر اپنی سفارشات مرتب کرتا ہے اس وقت بھارتی پنجاب کے تین سے زائد حصے ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں شروع ہی سے سیاسی سانچے کو نظر انداز کیا گیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں ہمیشہ آبادی کے تناسب سے حقوق کا تنازعہ موجود رہا۔ 1958ءمیں جنرل ایوب مارشل لاءکے بعد مغربی پاکستان میں ون یونٹ لگا کر ایک طرح سے پاکستان کے دوسرے حصے کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی بنیاد ڈالی۔ بہاولپور، پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کو ملا کر ون یونٹ بنایا گیا۔ ون یونٹ سے اس وقت نہ صرف اکثریتی صوبے کی حق تلفی ہوئی جب کہ پنجاب کے وسیع ترین صوبے کے ہونے کی وجہ سے باقی صوبوں میں حق تلفی کا تصور ابھر کر سامنے آیا۔ ون یونٹ کے ختم ہونے کے بعد سے پاکستان میں چار صوبے چلے آرہے ہیں، نئے انتظامی سانچے میں آبادیوں کو تقسیم کرنا حکومتوں اور ریاستوں کے لئے ایک فطری عمل ہے۔ تقسیم کے وقت پورے پاکستان کی آبادی 75 ملین کے لگ بھگ تھی جب کہ اس وقت پاکستان کی آبادی تقریباً 23 کروڑ کو پہنچ رہی ہے۔ نئے صوبوں کی تشکیل کے وقت اہم ترین مسئلہ کے علاوہ ایک تنازعہ کی صورت پر بھی سامنے ہے۔ جنوبی پنجاب اور سرائیکی علاقہ سب سے بڑے صوبے کا حصہ ہیں مگر پنجاب کا یہ علاقہ اپنے لئے علیحدہ صوبے کی آواز اٹھا رہا ہے۔ پنجاب کے پسماندہ ترین پندرہ اضلاع میں سے زیادہ تر سرائیکی خطے میں ہیں۔ جو شہر یا علاقہ صوبائی دارالحکومت سے جتنا زیادہ فاصلے پر ہو گا اس میں مختلف ذرائع سے اتنی ہی پسماندگی ہوگی۔
بدقسمتی سے شروع ہی سے پاکستان میں قائم ہونے والی زیادہ تر حکومتوں نے صوبوں کے بجائے وفاق کو مضبوط بنانے کی روایتوں پر عمل کیا۔
1973ءکے آئین میں صوبوں کو بہتر اختیارات تفویض کرنے کا وعدہ تو کیا گیا مگر اس پر عملدرآمد نہ ہوا۔ 1977ءمیں یحییٰ خان مارشل لاءلگانے کے بعد مرکز ہی میں حکومت قائم کرنے کو ترجیح دی۔ جنرل ضیاءالحق دس سال اقتدار میں رہے مگر انہوں نے بھی وفاقی حکومت کو مضبوط بنایا۔ 1999ءمیں جنرل مشرف نے 1973ءکے آئین کے برعکس پاکستان کو وفاقی طور پر چلایا مگر جنرل مشرف کے دور میں یہ اہم پیش رفت ضرور ہوئی کہ انہوں نے اپنے سات نکاتی ایجنڈے کا اعلان کرتے ہوئے ملک میں 7 نئے صوبے بنانے کا اعلان کیا مگر اس وقت بھی وجوہات کی بناءپر خاطر خواہ کامیابی نہ ہوسکی۔ 2012ءمیں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لئے کام شروع کیا گیا لیکن جغرافیائی حدود پر آکر تنازعہ کھڑا ہو گیا کہ نیشنل عوامی کی طرف سے بھرپور مخالفت سامنے آئی کہ ہمارے صوبے یعنی خیبرپختونخواہ کا ایک انچ بھی کسی اور صوبہ میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب صوبے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کی کثرت رائے سے حکومتی تجویز منظور کرلی گئی مگر اس کے ساتھ ہی بہاولپور کو پنجاب میں شامل کرنے کی پرانی بحث شروع کردی گئی اور تمام سفارشات منجمد ہو گئی۔
صوبہ پنجاب اس وقت پاکستان کی تقریباً 65 فیصد آبادی اور علاقہ پر مشتمل ہے۔ پاکستانی سیاسی حلقوں میں یہ ایک عام محاورہ ہے کہ وفاق تک پہنچنے کا راستہ پنجاب سے ہو کر گزرتا ہے مگر پاکستان کے دوسرے صوبوں میں رہنے والوں کو یہ ایک نا امیدی، حق تلفی کے ساتھ ساتھ اپنے لئے کم مائیگی کا نعرہ سنائی دیتا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران جب 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبائی حکومتوں کو ئے اختیارات اور حقوق تفویض کئے گئے اس وقت بھی یہ اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ صوبوں کی غیر متوازن حیثیتوں کے مطابق چھوٹے صوبے نا انصافی کا شکار ہو جائیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ جنوبی پنجاب اور سرائیکی علاقہ صوبے کے دارالحکومت سے فاصلے پر ہونے کی بدولت بے توجہی کا شکار رہے اور یقینی طور پر پنجاب میں اس سلسلے میں نظریاتی طور پر تفریق نظر آئی۔ پنجاب ہر گز یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کے تمام اضلاع مربوط اور ایک متفق لائحہ عمل سے منسلک ہیں۔ دور افتادہ علاقوں سے محرومیت اور نا انصافی کی بازگشت عام طور پر فضا میں رہتی ہے اور انتظامی تبدیلیوں کی شدید ضرورت اسی قسم کی صورت حال میں مطالبہ کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ بڑے صوبوں کی یہ خود ذمہ داری بنتی ہے کہ ان مسائل کی نشاندہی کرتے ان پر کارگزاری کی جائے۔
متعلقہ صوبوں کی اسمبلی اپنے اراکین کی دوتہائی اکثریت سے اگر اپنے صوبے کی حدود میں ردوبدل کرنے کی خواہش ظاہر کرے تو پھر ہی نیا صوبہ وجود میں آسکتا ہے۔ دوتنہائی کے اکثریت حاصل ہونے کے بعد پارلیمان آئینی ترمیم بل منظور کرکے صدر کو پیش کرسکتی ہے۔ وفاقی حکومت کی یہ ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے کہ ملک کی تمام آبادیوں پر نظر رکھے کہ تمام شہریوں کو بلا امتیاز و تفریق بنیادی سہولتیں فراہم ہو رہی ہیں یا نہیں۔
پڑوسی ملک کی طرح یہاں بھی ایک کمیٹی بنانی چاہئے جو کہ اس سلسلہ میں مکمل جائزہ کے بعد نئے صوبوں کے سلسلے میں اپنی سفارشات مرتب کرکے مرکز میں پیش کرسکے تاکہ اس پر عملدرآمد ہو سکے۔
2018ءکے انتخابات سے پہلے جنوبی پنجاب کے لوگوں نے تحریک انصاف پر اس سلسلے میں یقینی دہانی لینے کے بعد ہی اسے مینڈیٹ دیا تھا۔ 73 ویں یوم آزادی کے موقع پر تحریک انصاف نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا اعلان یہ ایک بڑا اور اہم فیصلہ ہے اگرچہ اقوام متحدہ کے اصولوں کی روشنی میں یہ ایک عارضی حیثیت ہے مگر اس اقدام سے یہاں کے لوگوں کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا ہوا ہے اور انہیں دوسرے صوبوں کی طرح تمام آئینی حقوق حاصل ہوئے ہیں ملک کے سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان میں بھی انتظامی طور پر نئے ڈویژن اور اضلاع بنانے کی منظوری کے بعد کاغذی کارروائیاں شروع کردی گئیں ہیں مگر ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ابھی تک نئے ڈویژن اور اضلاع بنوانے کے لئے بیوروکریسی کی فائلوں سے نکل نہیں پا رہا ہے بعض خبروں کے مطابق وفاق تک پہنچنے کے راستوں کو مسدود نہ کرنے کی حکمت عملی پر یقین رکھنے والے عوامل اس پر کارگزار ہیں۔ حکومت اپنی آبادیوں میں حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ذمہ دار ہے۔ نئے صوبے وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں