نریندر مودی نے جس طرح ہندو انتہا پسندی کا سہارہ لے کر پہلے گجرات صوبے کا اقتدار حاصل کیا پھر وہاں مسلمانوں کی نسل کشی کرکے اپنے آپ کو ہندو انتہا پسند سیاست دان کے طور پر پورے ہندوستان میں پیش کرکے جس طرح انتہا پسندوں کے جتھوں کی رہنمائی شروع کی، اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ ہندوستان کے عوام میں نفرت اور تعصب کی آگ بھڑکا کر مرکزی حکومت کا قتدار حاصل کرلے جس طرح وہ بھارت میں ہونے والے پچھلے انتخابات میں تمام مخالفین کو پچھاڑتا ہوا بہت بڑی اکثریت حاصل کرکے منصب اقتدار پر فائز ہو گیا۔
نریندر مودی نے وزیر اعظم بنتے ہی اپنی تمام توپوں کا رُخ پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے مسلمانوں کی جانب کردیا۔ نریندر مودی نے ہندوستان کے نظام زندگی کو تبدیل کرنے کے لئے ایک بعد دیگرے اقدامات کرنے شروع کردیئے اس نے چھانٹ چھانٹ کر اپنی وزارتی کابینہ ایسے متعصب ہندوﺅں کو شامل کرنا شروع کیا جنہوں نے ہندوستان کی روایات کو تبدیل کرنے کا عزم کیا ہوا ہے۔
ہندوستان کی سرزمین ہمیشہ سے پرامن اور محبت کرنے والوں کی دھرتی سمجھی جاتی ہے جو ہر ایک کے ساتھ رہ کر پرامن اور محبت، رواداری سے زندگی گزارتے تھے، یہ لوگ ایک دوسرے سے مختلف دھرم، رسم و رواج رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت سے زندگیاں بسر کرتے تھے، یہ باہر سے آنے والوں کو بھی خوش آمدید کہتے، فراخ دل واقع ہوئے تھے کیونکہ ایک زمانے میں ہندوستان دنیا کے امیر کبیر خطہ زمین میں شمار ہوتا تھا۔ ہر کوئی ہندوستان میں آکر رچ بس جاتا جیسا کہ موجودہ دور میں امریکہ، کینیڈا یا یورپی ممالک جو دوسرے ملکوں کے مقابلے میں خوش حال سمجھے جاتے ہیں یہی صورت حال ہندوستان کی تھی، ایک زمانے تک اس کو سونے کی چڑیا سمجھ کر دنیا بھر کے ہر علاقے سے لوگ جوق در جوق ہندوستان کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ بابا گرونانک اور بدھ مت کے ماننے والے اور جو مہاتما گوتم بدھ کی تعلیمات کے مطابق زندگیاں بسر کرتے جس میں کسی جاندار چاہے وہ انسان ہو یا جانور یا درخت بیل بوٹے تک کو نقصان پہنچانے کی اجازت تک نہ تھی اس لئے ہندوستان کی سرزمین پیار محبت رنگ و نور کے حوالے سے دنیا بھر میں کشش کا باعث ہوتی تھی، یہ ہی وجہ تھی کہ یہاں کے لوگوں میں مختلف رسم و رواج دھرم رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور محبت اور اخوت سے زندگیاں گزارتی جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے ہندوستان دنیا بھر میں بہت قدر و منزلت اور اہمیت حاصل تھی۔ مگر یہاں پر انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی آپس میں تقسیم کا آغاز ہوگیا، انگریز کی آمد سے پہلے باہر سے آنے والے جنگجو ہندوستا میں ہی اپنی مستقل سکونت اختیار کر لیتے یا کچھ گروہ وقتی طور پر ہندوستان پر حملہ آّر ہوتے اور ہندوستان کی دولت لوٹ کر واپس چلے جاتے تھے یا ہندوستان پر حکومت کرکے ان کی دوا دولت کو ہندوستان پر ہی خرچ کرتے تھے۔ مگر انگریز نے ہندوستان پر ایک سو سال حکومت بھی کی اور اس عرصے میں وہاں کی دولت کو لوٹ کر انگلستان منتقل کرتے رہے اس طرح ہندوستان کے لوگ غربت کا شکار ہوتے چلے گئے۔ اس سے نقصان یہ بھی ہوا کہ آپس میں پھوٹ پڑنی شروع ہو گئی۔ انگریز نے اس تقسیم کو اور ہوا دینی شروع کردی۔ یوں ان لوگوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تقسیم کا عمل شروع ہوگیا۔ جس کو شروع میں مسلمان اور ہندو لیڈروں نے روکنے کی بہت کوششیں کیں مگر وہ ناکام ثابت ہوئیں اس طرح ہندوستان کی مکمل تقسیم عمل میں آتی چلی گئی۔ تقسیم کے بعد بھی مسلمانوں کے لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہش تھی کہ ہندوستان اور پاکستان آپس میں اس طرح کے تعلقات رکھیں جیسا کہ امریکہ اور کینیڈا کے تعلقات ہیں۔ اس ہی طرح ہندوستان کے لیڈروں، پنڈت جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی نے ہندوستان کی روایات کو قائم کرنے کے لئے ایک ایسے آئین کی تیاری شروع کی جس میں ہندوستان کے تمام مذاہب کے ماننے والوں میں کسی قسم کا تعصب نہ برتا جائے اس طرح ہندوستان میں ایک ایسا آئین تشکیل دیا جا سکے سیکولر ہونے کی وجہ سے ہندوستان کو سیکیولر ملک کی حیثیت دی گئی۔ جس میں ہندوستان میں رہنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو انے مذہب پر بغیر کسی رکاوٹ کے چلنے کی آزادی تھی لیکن اس آئین میں ہندو مذہب کو بھی بہت فوقیت دی گئی تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں پر ڈھکی چھپی پابندیاں عائد بھی تھیں۔ اس ہی طرح پاکستان میں بھی جب 1973ءمیں آئین ترتیب دیا گیا تو اس میں اسلامی قوانین کو فوقیت حاصل تھی۔ مگر اس میں اقلیتوں پر کسی قسم کی پابندی نہیں تھی جس کی علامت کے طور پر پاکستانی پرچم میں سبز رنگ کے ساتھ سفید رنگ بھی موجود ہے۔ آئین میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت بھی حاصل تھی۔ اس ہی طرح ہندوستان اور پاکستان میں ایک جیسے نظام زندگی رائج ہونا شروع ہو گئے۔ مگر ایک طرف ہندو انتہا پسند ہندوستان کو ہندو ریاست بنانے کی جدوجہد کرتے رہے کیونکہ ہندوستان پر کانگریس نے شروع کے ایک طویل عرصے تک حکومت کی، ہو کھل کر ہندو توا کی حمایت نہیں کرتی تھی اس کے مقابلے میں بی جے پی کے لیڈر کھل کر بھارت کو ہندو ریاست بنانے کی وکالت کرتے تھے لیکن وہ الیکشن میں عوام کی اکثریت کو اس پر قائل نہیں کر سکتے تھے۔ ہندوستان کی سیکولر حیثیت کو تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے مگر نریندر مودی نے جس طرح اقتدار حاصل کرکے ہندوستان کی سیکولر شکل تبدیل کردی اس کے منفی اثرات ان پر اس ہی طرح نازل ہونا شروع ہو جائیں گے جس طرح پاکستان کے فوجی حکمران ضیاءالحق نے پاکستان کو اسلام کے نام پر معاشرے کو برباد کیا۔ اب موجودہ زمانے میں نریندر مودی کی پالیسیوں سے ہندوستان کو وہی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا جو کہ ضیاءالحق کی نام نہاد اسلامی پالیسیوں سے گزشتہ چالیس سالوں سے معاشرے کو برداشت کرنے پڑھ رہے ہیں۔ بدقسمتی پاکستانیوں کی یہ رہی ہے کہ ضیاءالحق کو ان کی مرضی کے بغیر مسلط کیا گیا اور اس کی تباہ کاریوں سے پاکستانی عوام اب تک سنبھل نہ پاتے ہیں مگر ہندوستان جس کی آبادی تقریباً ایک ارب سے زائد ہے اس پر مودی نے ہندوستان پر وہی عذاب نازل کرنا شروع کردیا جس عذاب سے پاکستان کے تقریباً بیس کروڑ لوگ گزر رہے ہیں جو کہ ان پر غیر منتخب حکمران ضیاءالحق کی وجہ سے نازل ہو رہا ہے اس کے برخلاف نریندر مودی کو ہندوستان کے عوام کی اکثریت نے باقاعدہ ووٹ دے کر مسند اقتدار پر براجمان کروایا۔ جس نے مرکز کے علاوہ صوبے میں بھی ایسے متعصب لوگوں کو مسلط کرنا شروع کردیا ہے جو کہ اندھا دھند ایسے اقدامات کررہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہندوستان کا وہ چہرے صدیوں سے جس کی تعمیر کی گئی جس کا روپ ہندوستان کو پیار محبت کی سرزمین سمجھاتا تھا اب وہ چہرہ مسخ ہوتا جارہا ہے۔ جس کی ایک مثال اترپردیش کے وزیر اعلیٰ جوگی آنند ناگھ ہے جو کہ مختلف شہروں اور جگہوں کی شناخت کو تبدیل کررہا ہے۔ وہ شہروں اور جگہوں کی شناخت ہی نہیں تبدیل کررہا بلکہ پورے ہندوستان کی وہ شناخت بھی تبدیل کررہا ہے جس شناخت کو قائم کرنے کے لئے دنیا کے مختلف رسم و رواج اور مذاہب کے ماننے والوں نے بڑی محنت سے تراش خراش کرکے ایک خوبصورت اور حسین چہرہ ہندوستان کودیا۔ وہی چہرہ آج ہندوستان کو دنیا بھر میں عزت و احترام دلوانے میں بہت بڑا کردار ادا کرواتا رہا۔ موجودہ دور میں نریندر مودی اور جوگی انند ناگ جیسے لوگ ہندوستان کی شناخت اور چہرے پر ایسے ہی کالک مل رہے ہیں جیسے ضیاءالحق نے اسلام کا نام لے کر دنیا بھر میں پیش کردیا۔ یہ غلطی ہندوستان کے عوام کب تک کرتے رہیں گے اس کا تعین وقت کرے گا یا وہاں کے عوام کی اکثریت۔
634