نقاب
حال سے ہو گئی ہے جو بے حال لمحہ فکر ہے مرے یارو
بے نوائی کے ایسے عالم میں ہو کے خانہ خراب پھرتی ہے
اپنے کرتوت پر کبھی دُنیا شرمساری سے منہ چھپاتی نہیں
موت کا خوف جب سے لاحق ہے تب پہن کر نقاب پھرتی ہے

نقاب
حال سے ہو گئی ہے جو بے حال لمحہ فکر ہے مرے یارو
بے نوائی کے ایسے عالم میں ہو کے خانہ خراب پھرتی ہے
اپنے کرتوت پر کبھی دُنیا شرمساری سے منہ چھپاتی نہیں
موت کا خوف جب سے لاحق ہے تب پہن کر نقاب پھرتی ہے