۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 209

ننگا الف

الفاظ کا جب ظہور ہوا تو گویا علم کا در کھل گیا۔ ہم مسلمانوں نے ماشاءاللہ ایک ہزار سال تک چھاپہ خانہ کو حرام قرار دے کر اس پر ہونے والے کام کو گناہ قرار دیا ہم کہ ازل کی بھیڑیں جس طرف ہنکا دیا جائے سو ترکی اور اب شرکیہ کے خلیفہ نے خصوصی دیدیا کہ ہائیڈل برگ جرمنی میں بننے والی مشینیں شیطان کا چرغہ ہے اور جس نے چھاپہ پڑھا تو سیدھا جہنمی گویا اللہ پاک کے ہاتھ میں کچھ نہ رہا ہماری جنت اور دوزخ اس جاہل خلیفہ ترکی کے ہاتھ میں تھی سو مسلمانوں پر چھپی ہوئی تحاریر جب ہزار سال تک حرام رہیں ایک تو اس قوم نے حفظ کرنے کے فن میں کمال حاصل کیا اور لاکھوں حدیثیں گھوٹ کر پی گئے اور بقول حالیہ تحریر کہ امام بخاری نے لاکھوں حدیثیں کو دنیا بھر میں گھوم پھر کر جمع کیا اور بعد میں سات ہزار سے زائد کو انہی کسوٹی پر پرکھ کر انہیں قرآن کے بعد کا درجہ دیا اس طرح حضور کے وصال کے پانچ چھ سو سال کے بعد وہ افراد سامنے آئے جنہوں نے سینہ سینہ حدیثیں سن کر انہیں جمع کیا اور پھر کیا ہوا کہ یہ ملت مسلمہ ایک دین کے بجائے 72-70 فرقوں میں بٹ گئی اب سنا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد نے کہا کہ ہزاروں حدیثیں حنفی ہیں لہذا اب سعودی میں صرف دو فرقہ ہوں گے الحدیث یا جو بھی وہ خود کہتے ہیں اور دوسرا فقہ جعفریہ ہائے ہائے وہ سعودی عرب جہاں شیعہ ہونا اور قبل سرزدنی ہونا برابر تھا جہاں سیعوں کو نوکریاں نہیں ملتی تھیں اور سعودی عرب کا سب سے زیادہ تیل یپدا کرنے والا قیف جو شیعوں کی آبادی کا علاقہ تھا شیعوں کو تہہ تیغ کردیا جاتا تھا اس طرح اب آہستہ آہستہ یہ بات ابھرکر سامنے آرہی ہے، ہر بیان کی ہوئی اور تحریر کی ہوئی عبارت پتھر کی لکیر نہیں ہوتی وہ مذہب جس میں حصول علم پیغمبروں کی میراث کہا گیا جہاں جنگوں میں پکڑے ہوئے قیدیوں سے کہا جاتا تھا کہ ایک مسلمان کو پڑھا دو آزاد کر دیئے جاﺅ گے۔ کیا یہ غیر مسلم قیدی اسلامی تعلیم دیتے تھے؟ نہیں بلکہ حصول علم اور علم کی سرحدیں نہیں، بس علم حاصل کرو اگر چین جان پڑے۔
حضور نے فرمایا کہ میں علم کا دروازہ ہوں، علیؑ اس کے در ہیں۔ کیا مسلمانوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ وہ علیؑ جو کہتے تھے کہ انہیں زمین سے زیادہ آسمان کے راستوں کا علم ہے، ان کے ساتھ کیا اس کا نظارہ آج کیا جا سکتا ہے کہ حکمرانی کی ہوس نے رسول کی تعلیم کو پس پشت ڈال دیا، جہلا کو حکمرانی عطا کردی جہاں قاضی ”امری المومنین“ کی نگاہ دیکھ کر فیصلے کرتے تھے جہاں حکم کی کوئی گنجائش نہیں تھی، کتنا بڑا المیہ ہے کہ رسول کے وصال کے سینکڑوں سال بعد یہودی اور نصرانی سے مسلمان ہونے والے محدثین سے لاکھوں حدیثیں مروی ہیں مگر خاندان رسالت کے افراد سے کہی ہوئی احادیث کو صحاح ستہ رسالت احادیث کی کتابوں میں کوئی جگہ نہیں ملی اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ غیروں کی مضحکہ خیز احادیث کو تسلیم کیا گیا مگر خانواد رسول کی احادیث کو نظر انداز کردیا گیا سو اس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہیں مسلمان جہالت کی اس منزل پر ہیں کہ دنیا اس کی مثالیں دیتی ہے۔
بحرحال یہ ایک طویل طویل معاملہ ہو گیا ہیں۔
اب ایک مزیدار قصہ سن لیں ہم سکھر کے رہنے والے ہیں ایک زمانے میں مشہور کمیونسٹ رہنما جو شاید سینٹرل کمیٹی (کمیونزم) کے ممبر بھی تھے شام کے اخبار ”مشرق ایوننگ“ کے ایڈیٹر تھے تو انہیں کراچی سے جلا وطن کردیا گیا، وہ سکھر آگئے، ادیب آدمی تھے (یہ بھی عجیب ہے کہ آدمی اور ادیب) سو انہوں نے سکھر آکر ایک اخبار راہنما نکالنے کا ڈول ڈالا اور ان کا فنانسر شمشاد فانی تھا جس کے متعلق افواہ تھی کہ اس کے باپ کو بہادری کا وکٹوریہ کراس ملا ہے ایک دولت ملی ہے مگر اس کی ماں ڈاکٹر غوری کے یہاں کام کاج کرتی تھی، خود شمشار چارسو بیس کے نام نامی سے متعارف تھا اور اس سے برا سا مناتا تھا سو پیکر صاحب نے شمشاد سے پیسے لے کر اخبار ”راہنما“ جس میں ایڈیٹوریل وہ لکھتے تھے اور ایک ہمارے خیال میں ایک ”مزاحیہ“ صورت حال یہ ہے کہ۔۔۔؟ ہم لکھتے تھے باقی ساری اخبار سفارت خانے کے چھاپے ہوئے پہلے سطروں سے بھر دیا جاتا تھا جس سے پیکر صاحب نے سکھر کے پھابھرباز کے نام نہاد دتر میں میز پر مار کر کہا کہ ”ہم کینڈی کو تنبہہ کر دینا چاہتے ہیں اگر اس نے رویہ نہ بدلا تو۔۔۔۔؟ سب نے کہا پیکر صاحب اس افہام سے کینڈی کو دھمکی دینا تو میرے مزاحیہ کالم میں بنتا تھا آج کیوں اپنا گھونسہ ضائع کررہے ہیں اسی دوران اخبار کے خلاف حکومت نے کارروائی شروع کردی تو پیکر صاحب نے شمشاد 420 سے کہا کہ ”ابے اب دوسرا اخبار نکالنا پڑے گا“ شمشاد 420 صاحب بولے پیکر صاحب آپ نے اخبار کا ڈول ڈالیں اور اس کا نام رکھیں ”صدر ایوب کی ترقی زندہ باد“ پیکر صاحب نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا ”ابے اتن المبا نام نہیں چلتا اخبار کا“ بس شمشاد 420 بولے تو پھر ”الف“ رکھ دو پھر پیکر صاحب کو مرچیں لگ گئیں، کہنے لگے ابے چقندر اتنا مختصر بھی نہیں، اب میری طرف دیکھا اور آپ بھی کچھ پھوٹو میں نے کہا کہ سر اخبار کا نام رکھیں ”ننگا الف“ بہرحال بات تو مذاق میں تھی مگر آج مجھے ہر اخبار کا نام یہی نظر آتا ہے۔ الفاظ کی حرمت ختم ہو چکی ہے، صحافی جسے کہتے تھے کہ اس پر وحی اترتی ہے آج سربازار ننگا کھڑا ہوا ہے، نوٹو کا لباس ہے کسی نے دیدیئے پہن لئے اور پھر بعد میں ننگے کے ننگے۔ سو اب الفاظ لکھ لکھ کر محسوس ہوتا ہے اب کارید ہوئی اور زیادہ بہتر کام کریں کیونکہ الفاظ بے روح ہو گئے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں