جس معاشرے میں چور کو چور اور ڈاکو کو ڈاکو کہنا مشکل بنا دیا گیا ہو تو پھر آپ اندازہ لگائیں کہ وہاں کسی کو عدالتوں سے سزا دینا کتنا کٹھن کام ہوگا اور اس کے بعد سزا کو برقرار رکھنا اور اس پر عمل درآمد کروانا تو شیر کے حلق سے نوالا نکالنے سے کم نہ ہوگا۔ جی ہاں میں پاکستانی معاشرے کی بات کررہا ہوں، وہاں اسی طرح سے ہوتا ہے اور اسی طرح کی صورت حال سے ان دنوں پوری قوم محظوظ ہو رہی ہے۔ شریف خاندان کی سزائیں اور زرداری خاندان کے مقدمات ملکی ڈھانچے کو بری طرح سے ہلا رہی ہے۔ پوری قوم کی نگاہیں جس ملکی ادارے کی جانب لگی ہوئی ہیں وہ ادارہ بھی سیاسی جھکڑوں کی زد میں ہے اور وہاں سے بھی مصلحت پسندی سی کام لینے کی شروعات ہو چکی ہے۔ غرض چور اور ڈاکو کو ان کے ناموں سے پکارنے کو مشکل بنا دیا گیا ہے۔ وہی مشکل دوسرے قانونی مرحلوں پر بھی غالب ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے، میں جس معاشرے میں رہتا ہوں وہاں معمولی نوعیت کے جرائم کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ معمولی وارداتوں پر پولیس اور انتظامیہ الرٹ ہو جاتی ہے جس کا مقصد بڑی وارداتوں کی پیش بندی کرنا ہوتا ہے۔
ٹورنٹو میں اسی طرح سے ہوتا ہے، ٹریفک کی معمولی غلطیوں پر پولیس حرکت میں آتی ہے اور چاقو، چھری اور جھگڑے کے معمولی واقعات پر الیکٹرونک میڈیا دن بھر طوطے کی طرح ٹائیں ٹائیں کرتا رہتا ہے اسی وجہ سے ٹورنٹو میں قانون کی بالادستی قائم ہے اور ہر کوئی قانون کا احترام کرتے ہوئے اسے محترم بنا رہا ہے لیکن اس کے برعکس پاکستان میں جب چور کو چور اور ڈاکو کو ڈاکو کہنا ہی مشکل بنا دیا گیا ہے تو پھر اس سے آگے کی قانونی کارروائی کس طرح سے ممکن ہو سکے گی؟ چور اور ڈاکو کو اس کے نام سے پکارنے کو مشکل بنانے کا مقصد اس کے انسداد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے۔ قانون اور انصاف کو بے توقیر کرنا ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ ایسا کرنے میں وہی لوگ سب سے آگے ہیں جو خود قانون بنانے والے ہیں اس کی نوک پلک سنوارنے والے ہیں جو خود کو سپریم ادارہ کہتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے۔ وہی لوگ قانون و انصاف کی بے توقیری کا باعث بن کر باقی معاشرے ک ے لئے رول ماڈل بن رہے ہیں ان دنوں یہ ہی تماشہ ملک میں ہو رہا ہے۔۔۔
شریف خاندان کے خلاف کاررروائی کرو تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے، زرداری خاندان کے کالے کرتوتوں پر ہاتھ ڈالو تو بھٹو کو قبر سے باہر نکال کر واویلا مچانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں تو جعلی جمہوریت کے یہ دعویدار خود ہی جمہوریت کے سب سے بڑے دشمن ہیں اس لئے کہ جمہوریت کی تو پوری عمارت ہی ”رولز آف لائ“ پھر کھڑی ہے جو جمہوریت پسند اگر خود قانون کی بے توقیری کرے گا وہ کس طرح سے جمہوری ہو سکتا ہے اس لئے کہ وہ تو خود قانون بناتا ہے جس طرح سے کوئی مصور کسی آرٹ یا تصویر کی بے حرمتی نہیں کر سکتا اسی طرح سے کوئی جمہوری آرمی کسی قانون کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی جمہوریت کا لبادہ چوروں اور ڈاکوﺅں کی اکثریت نے اوڑھ لیا ہے اور وہ اس جمہوریت کو ڈھال کے طور پر اپنے بچاﺅ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یعنی خود کو قانون کا مقابلہ اس کی ماں یعنی پارلیمنٹ سے کروارہے ہیں جو قانون کو جنم دیتی ہے۔ میرے خیال میں پوری جمہوری تاریخ میں جمہوریت کی بے توقیری کی ایسی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔
نواز شریف اور زرداری کے یہ مقدمات پاکستانی جمہوریت کی بقاءکے لئے ٹیسٹ کیس بن گئے ہیں اگر اس سسٹم کے ذریعے جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ان دونوں خطرناک مجرموں کو سزا ہو گئی تو پاکستانی جمہوریت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بلیک میلنگ اور جرائم کے گند سے صاف ہو جائے گی۔ ورنہ پاکستانی جمہوریت مزید آلودہ ہوتے ہوئے آمریت سے بھی بدتر ہو جائے گی اور ایسے میں ملکی عوام بہت سے جمہوری آمروں کے بجائے کسی ایک ہی آمر کے حکمران بننے کے لئے دعاگو ہو جائے گی۔ اس لئے پاکستان پر حکمرانی کرنے والے سبھی اداروں کو چاہئے کہ وہ ملک میں ”رولز آف لائ“ کے لئے اپنی کوششیں تیز کردیں۔ قانون کی بالادستی سے جہاں ملک میں امن و امان کی صورتحال قائم ہوگی وہیں جمہوریت بھی مضبوط و مستحکم ہو گی اس موجودہ صورتحال میں سب سے زیادہ ذمہ داری ملکی عدلیہ اور سیکیورٹی فورسز پر عائد ہوتی ہے، عدالتوں کو چاہئے کہ وہ کسی بھی طرح کے دباﺅ میں آئے بغیر آئین اور قانون کے دائرے میں شہادتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کریں جب کہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ عدالتوں سے کئے جانے والے فیصلوں پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کروائیں اور اس تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کریں کہ چور کو چور اور ڈاکو کو ڈاکو کہنا مشکل کام ہے بلکہ اس تاثر کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی قانون سے بڑا اور طاقتور نہیں بلکہ واقعی ”لمبے ہاتھ قانون دے“ ہی ہے، کوئی بھی مجرم قانون سے چھپ نہیں سکتا، بھاگ نہیں سکتا، جمہوریت کا آمریت کا یا صحافت کا کسی بھی طرح کا لبادہ اوڑھ کر وہ قانون و انصاف کو نہ تو ڈرا سکتا ہے اور نہ ہی بہکا سکتا ہے اور قانون کی حکمرانی ہی جمہوری معاشرے کی اساس ہے۔ ہمیں قانون کی مدد سے جمہوریت سے خود جمہوریت کے دشمنوں قومی خزانے کو لوٹنے والوں کو نکالنا ہوگا۔ اسی میں ایک نیا پاکستان مضمر ہے۔
552