مملکت پاکستان اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک منفرد انتظامی ڈھانچہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ 1956ءمیں تیار ہونے والے پہلے آئین سے لے کر 1973ءمیں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں مرتب ہونے والے آئین میں انتخابات سے متعلق جو شقیں وضع کی گئیں ان میں کہیں بھی نگراں حکومت یا نگراں وزیر اعظم کا تذکرہ نہیں ملتا۔ دنیا کی دیگر جمہوری حکومتوں اور ممالک میں بھی اس کے اشارے موجود نہیں۔
ریاست پاکستان میں اس کو رائج کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، یہ ایک گمبھیر مسئلہ ہونے کے ہمراہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کی بنیاد اور آئین اسلامی اصولوں پر مرتب کی گئی جس کے تحت ایمانداری اور شفافیت سے معاملات حکومت چلانے کی تاکید کی گئی ہے، پر ایک ایسا تازیانہ ہے جو صدیوں تک تاریخ عالم میں قلمبند کیا جاتا رہے گا۔
انتخابات کے لئے نگراں حکومت کی بازگشت پہلی دفعہ 1977ءمیں سنائی دی جب دھاندلی کے خلاف شکایات کا انبار سامنے آیا جو کہ اس وقت کی موجودہ حکومت کے زیر انتظام انجام پائے، اس مسئلہ پر اس وقت کی حکومت اور حزب اختلاف میں یہ اتفاق کیا گیا کہ آئندہ انتخابات ایسے سیٹ اپ کی نگرانی میں ہونے چاہئے جو نہ صرف غیر جانبدار ہو بلکہ انتخاب کے نتیجے میں آنے والی حکومت کے قائم ہونے میں آسانیاں پیدا کرنے کے ساتھ اپنے قیام کے درمیان حکومت کے معمول کے کام انجام دے سکے جن کا تعلق عوام کی صرف روزمرہ کی زندگی سے ہو۔ اس سیٹ اپ کی معیاد اسمبلیوں کے تحلیل ہونے سے لے کر نئے وزیر اعظم کی اپنے عہدے پر حلف لینے تک ہو۔ پاکستان میں اب تک گیارہ دفعہ انتخابات ہو چکے ہیں مگر 1990ءتک نہ تو ایسی نگراں حکومت کے لئے کوئی آئین سازی کی گئی اور نہ ہی کوئی نگراں حکومت قائم کی گئی۔ 1990ءمیں جب محمد خان جونیجو کی حکومت ختم کی گئی تو اس وقت کے صدر جنرل ضیاءالحق نے پہلی دفعہ صدر کے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے غلام مصطفیٰ جتوئی کو نگراں وزیر اعظم مقرر کیا۔ یہ پاکستان کا پانچواں الیکشن تھا۔ نگراں حکومت کا قیام آئین کی شق 224 کے تحت بیان کیا گیا۔ جس میں صدر نگراں وزیر اعظم کی تعیناتی اس وقت کے وزیر اعظم اور حزب اختلاف کے مابین مشاورت کے بعد کرتا ہے اور اگر ان دونوں فریقوں میں کسی فرد یا شخصیت پر اتفاق رائے نہ ہو پائے تو پھر یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں چلا جاتا ہے۔
1990ءسے لے کر 2018ءتک سات نگراں وزرائے اعظم مقرر کئے گئے ان سب کی مدت حکومت 3 سے 4 ماہ تک محدود رہی اور ان کے اختیارات بھی صوبائی اور وفاقی دونوں سطح پر محدود رہے۔
26 جولائی 2023ءکو مشترکہ پارلیمانی اجلاس الیکشن ایکٹ 2017ءمیں 54 ترامیم منظور کر لی گئیں جس کے نگراں حکومت اب کہیں زیادہ با اختیار ہو گئی اور اس کے دائرہ اختیار میں حکومتی امور کے کئی ایسے کام بھی شامل کئے گئے ہیں جو اس سے قبل صرف ایک منتخب حکومت کی ذمہ داری اور اختیار تھے۔ اس میں کچھ ترامیم تو ضرور ایسی پاس ہیں جن سے نگراں حکومت کو اپنے فیصلے کرنے میں آسانی ہو گی کسی بھی اتفاقی یا آئندہ کے مسائل پر مگر زیادہ تر ترامیم نشاندہی کررہی ہیں کہ یہ گویا نگراں حکومت کی صورت میں موجودہ حکومت کی ہی توسیع کے انتظامات کئے جارہے ہیں۔ موجودہ اتحادی حکومت پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے صوبوں میں نگراں حکومت کو جس مدت حکومت اور لا تعداد اختیار تفویض کر چکی ہے اس نے ان الیکشن ایکٹ کی ترامیم پر گہرے ابہام لاکھڑے کئے ہیں۔
2006ءمیں ن لیگ اور پاکستان پیپلزپارٹی نے جس میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تھے اس کی رو سے بھی نگراں حکومت غیر جانبدار ہوگی اور اس کے رفقا الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ 13 جماعتی اتحاد کی حکومت کے ختم ہونے میں بہ مشکل چند روز باقی رہ گئے ہیں مگر ابھی تک دونوں بڑی جماعتوں ن لیگ اور پی پی پی میں نگراں وزیر اعظم کے نام پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کہ نگراں وزیر اعظم اس دفعہ سیاسی ہوگا یا کوئی ماہر معیشت۔ اسٹیبلشمنٹ اور خاص طور پر شہباز حکومت کے درمیان جو خصوصی تعلقات مشاہدے میں ہیں وہ تو ظاہر یہ ہی کررہے ہیں کہ ایجنڈا دونوں کا باہم ہے کہ الیکشن کا فوری انعقاد ضروری نہیں۔ نگراں حکومت کو طول دیا جا سکتا ہے، اس لئے نگراں وزیر اعظم ایسا ہونا چاہئے جو معاملات کو بخوبی سنبھال لے اور ان تمام پالیسیوں پر عمل کرنے پر رضا مند رہے جن کی قانون سازی پر حکومت اپنے آخری چند دنوں میں انتہائی سرعت کے ساتھ عمل پیرا ہے۔ اتحادی اب کھل کر اس کا گلہ کررہے ہیں کہ نہ صرف نگراں حکومت بلکہ ان قانون سازیوں میں بھی انہیں اعتماد میں نہیں لیا جارہا جو کہ اسمبلی میں اراکین کی انتہائی قلیل تعداد سے منظور کروائی جارہی ہیں۔
گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف کے اس بیان نے بھی سیاست میں ہلچل مچا دی کہ الیکشن اب نئی مردم شماری کے بعد کروائیں جائیں گے گویا یہ ذومعنی الفاظ میں واضح کردیا گیا ہے کہ انتخابات کا اس سال کوئی امکان نہیں۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ پھر واقعی اسمبلیاں وقت پر تحلیل کی جائیں گی یا نہیں۔ الیکشن کمیشن تو ویسے بھی موجودہ حکومت کا کارندہ تعبیر کیا جاتا ہے اگر حکومت نے نئی مردم شماری کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو نئی حلقہ بندیوں کے لئے الیکشن کمیشن کو ایک لمبا عرصہ درکار ہوگا، گو کہ حکومتی حلقوں میں بھی اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ پی پی پی خاص طور پر الیکشن میں جانے کے مضبوط ارادے ظاہر کررہی ہے مگر ن لیگ کے وزراءتواتر سے اس سلسلے میں مختلف بیان دے رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ن لیگ کی 16 ماہ کے دور حکومت میں نواز شریف کے واپسی کے راستے نہیں نکل سکے۔ ن لیگ میں دراڑیں اب کافی حد تک کھل کر سامنے آچکی ہیں، اسحاق ڈار کا نام نگراں وزیر اعظم کے طور پر اس سلسلے میں سامنے لایا گیا تھا جس پر خود ن لیگ کے لوگوں نے شدید تنقید کی تھی۔ آئندہ کچھ دنوں میں سیاسی صورتحال ہر جانب اور ہر طور سے سامنے آئے گی۔ نگراں حکومت اور وزیر اعظم کن کواٹرز سے آتا ہے دیکھنا ہوگا۔
126