بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 154

نہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں ہے۔۔۔ کہاں پہ لا کے چھوڑا ہے کسی نے

پاکستان ہمارے حکمرانوں اور اداروں کی کرپشن کے نتیجہ میں آج ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے کہ جہاں سے آگے تباہی ہی تباہی دکھائی دے رہی ہے۔ حکومت کوشش کے باوجود حالات کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ ملک میں سیاسی دنگل جاری ہے اور میڈیا ہو یا ہمارا جسٹس سسٹم، سب کچھ زمین بوس ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ لگتا ہے کہ آئی ایم ایف نے بھی یہ طے کر لیا ہے کہ اب پاکستان کو بیساکھیاں بھی اپنی شرائط پر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے مگر آئی ایم ایف پاکستان سے معاہدہ میں تاخیری حربہ استعمال کرکے ملک میں انارکی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ دوسری جانب ملک کی اعلیٰ عدالت نے فوری الیکشن کرانے کا فیصلہ سنا کر حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے اور حکومت کے ہاتھ پاﺅں بھول گئے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اگر الیکشن ہو بھی گئے اور جیسا کہ خیال کیا جارہا ہے کہ آئندہ الیکشن میں عمران خان واضح اکثریت سے حکومت بنائیں گے تو کیا عمران خان اس معاشی صورتحال کا کوئی فوری حل ڈھونڈ سکیں گے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
فوج کے بار بار خود کو سیاست سے الگ رکھنے کے بیانیہ کو عوام نے رد کردیا ہے اور فوج عوام کے نشانے پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت خواہش رکھنے کے باوجود عمران خان کو گرفتار کرتے ہوئے گھبرا رہی ہے۔ پاکستان میں اظہار رائے کی آوازوں کو دفن کردیا گیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ حکمران، اسٹیبلشمنٹ اور دیگر ادارے اپنی اپنی بقاءکی آخری جنگ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں رہنے والا ہر پاکستانی اپنے اپنے مفادات کی بھٹی میں جل رہا ہے اور کسی بھی صورت میں ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دینے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں۔ ملک میں پیدا ہونے والے اسی خلفشار کا فائدہ اٹھا کر آئی ایم ایف مسلسل پاکستان پر دباﺅ ڈال کر اپنی مرضی کے فیصلہ کروا رہا ہے۔ خیال ہے کہ جون 2023ءکا بجٹ لوگوں کی چیخیں نکلوانے کے لئے کافی ہو گا۔ ہمارے حکمران عوام کو ایک ایسے منجدھار میں لے آئے ہیں جہاں سے واپسی کا راستہ کسی کو دکھائی نہیں دے رہا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں