ریاست جمہوریہ/عسکریہ پاکستان 129

نیرنگئی سیاست

کچھ عجیب تر ہی ہے نیرنگیئی سیاست دوراں۔ درپردہ جو حکمرانی فی الوقت رائج ہے۔ اسے بھگتے ہوئے اس مملکت خداداد پاکستان کے 25 کروڑ عوام کو اب کوئی شبہ نہیں رہ گیا کہ پاکستان پر کسی خلائی مخلوق کا بسیرا تو ہو گیا ہے۔ ایک ایسا نظام نافذ ہو چکا ہے جس نے گزشتہ تمام مارشل لاءجیسے ادوار کو پیچھے چھوڑتے ہوئے پورے پاکستان کو بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا کرنے کے ہمراہ عدم تحفظ کی دلدل میں جھونک دیا ہے۔ یاسیت جب حد سے تجاوز کر جائے تو امید کی کوئی بھی رمق فکر انگیزی میں ڈھل نہیں سکتی۔ حالات تو مملکت پاکستان کے پچھلے 76 سالوں میں کبھی بھی ایسے نہیں رہے جہاں مکمل گوشوارئہ امن قلمبند کیا جا سکے مگر موجودہ صورت حال جس طرح عوام اور ریاست کے درمیان ایک پیچیدہ تنازعہ بن کر سامنے آرہی ہے وہ ایک انتہائی گمبھیر معاملہ ہے۔ نا اہل، کم فہم اور کوتاہ نظر سیاسی اشرافیہ اس مسئلہ کے اہم ترین جز ثابت ہو رہے ہیں۔ ریاستی ادارے انصاف اور تحفظ فراہم کرنے کے برعکس اگر امور حکومت میں شامل اور مصروف ہو جائیں تو یقینی طور پر آئین شکنی کی راہیں ہموار ہو جاتی ہیں۔
قوت، اخوت، عوام جیسی اصطلاحیں اپنی تشریح اور وقعت اس وقت مکمل طور پر کھو چکی ہیں۔ عوام کی قوتیں سلب ہو کر اداروں کے ہاتھوں کے کھیل میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ پچھلے 18 ماہ میں جو کچھ پاکستانی عوام پر گزری وہ پاکستانی تاریخ کے سیاہ ترین صفات میں رقم کی جائے گی۔ معاشی دگرگوں حالات سے لے کر لاقانونیت اور جبر کا جو کوہ گراں 9 مئی کے واقعات کی آڑ میں پاکستانیوں پر ڈھایا گیا خصوصاً ان بے گناہ مرد و زن اور کم عمر بچوں پر جن کو یہ تک خبر نہیں کہ ان پر مقدمات کیا ہیں اور کب سامنے لائیں جائیں گے اور وہ کس جرم کی پاداش میں زیر حراست ہیں یا پھر وہ اغواءبرائے بیان کے سلسلے جس کے بعد تمام گناہوں سے یکسر پاک کردیا جاتا ہے، نے پاکستانیوں کو یہ باور کروانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی کہ ریاست یرغمال ہو چکی، کچھ طاقتوروں کے ہاتھوں اور عوام کو تہی دست بنا دیا گیا۔
اس وقت سپریم کورٹ کی اس فیصلے کے خلاف کہ سویلین کا مقدمہ فوجی عدالت میں نہیں دیا جا سکتا جس طرح موجودہ وزارت دفاع نے اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے وہ بہت کچھ بیان کردے رہا ہے۔ سینیٹ میں ایک قلیل تعداد کے ساتھ بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد منظور کرلی گئی ہے۔ پچھلے 76 سالوں میں کبھی اتنی شدومد کے ساتھ فوجی عدالتوں کی اہمیت اجاگر نہیں کی گئی جس طرح تمام سیاسی جماعتیں اس وقت اس کے حق میں گرفتار ہیں۔ تمام مشائخ و علماءکی گرفتاری بھی اس سلسلے میں فتویٰ حاصل کرنے کے لئے عمل میں آنے کا عوام کو انتظار ہے۔ ریاست پاکستان انتہائی تفصیل کے ساتھ اپنے شہریوں کے حقوق کی نسبت اداروں کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا ہے۔ پاکستان کا ہر شہری آئینی طور پر مساوی حق رکھتا ہے۔ آزادیءرائے سے لے کر کار حکومت میں شامل ہونے کے لئے تمام پر یکساں شرائط لاگو ہوتی ہیں مگر جہاں عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان انتہائی فاصلے پیدا ہو چکے ہوں، جہاں آئین کی شقیں معزول نظر آتی ہیں۔
سیاست پاکستان میں ایک گھناﺅنے کھیل کی حیثیت اختیار کر چکی ہے، جس میں اخلاقیات، تہذیب اور معاشرتی اداروں کے تمام عناصر مفقود ہو چکے، سیاسی حریفوں سے نپٹنے کے لئے انتہائی اقدام اٹھانے کے سلسلے کئی دہائیوں سے عمل میں آرہے ہیں مگر موجودہ صورت حال نے نئی ہولناک روایتوں کو جنم دیا ہے اور جو طریقے اس وقت اپنائے جارہے ہیں وہ اخلاقی انحطاط کی بدترین مثال ہیں۔ ماضی میں ن لیگ اپنی مقابل جماعت پیپلزپارٹی سے متعلق انتہائی نازیبا، غیر اخلاقی واردات کی مرتکب ہو چکی ہے جس میں مشرقی معاشرہ کی تمام تہذیبی قیود کو پھلانگ لیا گیا تھا۔ بے نظیر سے متعلق یہ واقعہ ابھی ذہنوں سے محو نہیں ہوا۔ اس وقت پھر یکساں صورت حال یا حکمت عملی دہرائی جارہی ہے۔ خاص طور پر نواز شریف کا صحافی کے خاور مانیکا کے انٹرویو کے سوال پر مسکرا کر جواب دینا اور اس واقعہ کو سراہنا ان حلقوں کو بھی جن میں ن لیگ کے لئے تھوڑی سی بھی ہمدردی موجود تھی، نے غم و غصہ سے دوچار کیا ہے۔ تجربہ طویل العمری بہت سے فہم و فراست کے دروازے کھول دیتا ہے مگر مایوس کیا ہے ایک عام آدمی کو سیاست کے اس انداز نے۔
سیاسی جماعتیں اس عمل سے انتہائی بے پرواہ اور لاتعلق نظر آتی ہیں کہ یقینی طور پر ریاست پاکستان کی جڑیں کاتنے کا عمل جاری ہے اور اس کارخیر میں کئی پردہ نشین اب کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ کسی بھی سیاست کی سلامتی اور بقاءکے لئے اس کے تمام اداروں کو آئین کے تابع ہونا ضروری ہے۔ اس وقت عدلیہ بے بس اور لاچار نظر آتی ہے۔ پچھلے 18 ماہ میں مستقل اس کے فیصلوں کی بے توقیری کی گئی ہے اور اس میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش بدستور جاری ہے۔ ذرائع ابلاغ عامہ پر جس قسم کی پابندیاں عائد کی گئی ہیں اس نے صحافت کی ساکھ کو بے طرح مجروح کیا ہے۔ جمہوری طرز عمل کو پامال کرتے ہوئے عوام کی رائے دہندگی کے حق کو غصب کرنا گویا جمہوریت پر شب خون مارنا ہے۔ حکومت قائم کرنا عوام کا حق ہے ان پر کچھ طاقتوں کی رائے مسلط نہیں کی جا سکتی۔
اور اب اہم ترین سوال یہ ہے کہ واقعی تمام فریقوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ پاکستان کو ختم کردینا ہے تو کیا تمام قیمتیں لگ چکی ہیں؟ کیا سب بک چکے، اپنے اپنے مفادات کے ہاتھوں۔ منصفوں سے لے کر طاقتور اداروں تک۔ جب پاکستان کے داخلی معاملات میں امریکی اور برطانوی سفیروں کی دخل اندازی کو سراہا جائے تو بے ضمیری کی داستانیں تو لگتی ہیں اور جب بے ضمیری اتنی عام ہو جائے تو تمام لحاظ و مراتب بے وقعت ہو جاتے ہیں اور نحوست پر پھیلا لیتی ہے عوام الناس پر۔ ایک ایسی نحوست جو ان پر قابض ہو جاتی ہے حکمرانوں، سیاستدانوں، منصفوں اور طاقتور اداروں کی صورت میں۔ ایسے ناعاقبت اندیشوں کی صورت میں جن کے نزدیک پاکستان کی حرمت و تعظیم ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ پندار بادشاہت کے آگے اور پھر خلق خدا صرف یہ ہی نعرہ لگاتی رہ جاتی ہے کہ
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں