بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 225

والدین آنکھیں کھلی رکھیں

موجودہ دور میں جہاں انسان ترقی کی منازل تیزی سے طے کررہا ہے اور دنیا کو تسخیر کرنے کے عمل میں مصروف ہے، ہر روز سورج نئے تجربات اور ایجادات کے ساتھ طلوع ہو رہا ہے، کسی بھی شعبہءہائے زندگی کو لے لیجئے۔ آپ کو روز کچھ نیا سیکھنا پڑ رہا ہے۔ انسان کے ہاتھ میں چھوٹی سی ڈیوائس جسے سیلولر فون کا نام دیا گیا ہے اپنے اندر لامتناہی معلومات کا خزانہ اسٹور رکھتا ہے جس میں اچھی چیزیں بھی ہیں اور غلط مواد بھی۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ اس کا استعمال کس حد تک اور کیسے کیا جا رہا ہے اب سے کچھ عرصہ قبل تک بچوں کے والدین بچوں کو کمرہ بند کرکے کمپیوٹر پر کام کرنے سے روک دیتے تھے اور اچھی فیملیز کی یہ روایت تھی کہ بچوں کو پرائیوسی کے نام پر اپنے کمروں کو لاک کرکے کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ ان کے حقوق کا خیال ضرور رکھا جاتا تھا مگر والدین خصوصاً ماں حیلہ بہانوں سے بچوں کے کمروں میں جا کر چیک کر لیا کرتی تھیں کہ ان کے بچے کہیں کسی غلط ویب سائٹ پر تو نہیں، ایسا کرنے سے کسی حد تک بچوں میں اس بات کا خوف کارفرما رہتا تھا کہ کسی بھی لمحہ کوئی ان کے کمرے میں آسکتا ہے مگر پھر موبائل فونز کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہو گیا۔ سیل فون ایک مکمل کمپیوٹر کا کردار کرنے لگا اور یوں والدین کے لئے بچوں کے معاملات کو ٹریک کرنا مشکل ہو گیا۔ پاکستان سے باہر کے ممالک میں رہنے والے خصوصاً وہ والدین جو ملازمت کررہے ہیں اور دن بھر ان کے بچے گھروں میں یا تو اکیلے ہیں یا پھر گھروں سے باہر نکل کر کسی بھی کافی شاپ میں بیٹھ کر کیا گل کھلا رہے ہیں۔ والدین ان باتوں سے بے خبر ہیں۔ مسلمان بچوں کے والدین کو اپنی آنکھیں کھول کر رکھنی چاہئیں اور بچوں سے روزانہ باتیں کرنا چاہئیں۔ ان کے دوستوں پر نظر رکھنا، ان کے گھر سے باہر جانے اور آنے کے وقت ان سے پوچھنا اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا، انہیں یہ احساس دلانا کہ وہ تن تنہا نہیں بلکہ وہ ایک فیملی کا حصہ ہیں اور ان کا اٹھایا ہوا کوئی بھی اچھا یا بُرا قدم نہ صرف ان کے بلکہ ان کے پورے خاندان کے لئے یا تو باعث افتخار بنے گا یا ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فیس بک، واٹس اپ اور فون پر دیگر چلنے والے ایپس جہاں بہترین نیٹ ورکنگ کا ذریعہ ہیں وہیں بہت حد تک خطرناک بھی ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ عورت کے روپ میں کون سا تخریب کار موجود ہے یا پھر مرد کے روپ میں کون غلط کاریوں میں مصروف ہیں۔ ہم نہایت سادگی سے فرینڈز آفرز کو قبول کر لیتے ہیں اور یوں اکثر بچے ناگہانی آفتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ضروری یہی ہے کہ اپنے بچوں سے قریب رہیں، اُن سے اسکول کالج اور ایجوکیشن کے متعلق یا ان کی ملازمت کے متعلق مکمل آگاہی رکھیں، ان کے شب و روز پر نظر رکھیں۔ ان کے رویوں کا بغور جائزہ لیتے رہیں۔ اگر آپ یہ سب عمل جاری رکھیں گے تو بچوں کے کردار میں کسی بھی تبدیلی کی صورت میں آپ فوراً اندازہ کر سکیں گے کہ صورتحال کیا ہے مگر اگر آپ نے بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تو یاد رکھئیے کہ یہ زمانہ انہی ڈیوائسز کی مدد سے انہیں ایسے راستہ پر ڈال سکتا ہے۔ جہاں سے خدانخواستہ واپسی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے۔ اس لئے اپنی آنکھوں کو کھلا رکھیں۔ اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیتے رہیں اور اپنے بچوں اور اپنے خاندان سے کلوز کمیونیکیشن رکھیں۔ اسی میں ہماری اور ہمارے خاندان کی مضبوطی پوشیدہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں