بہت دیر کی مہرباں آتے آتے، حسن عسکری بھائی کو صدارتی تمغہءحسنِ کارکردگی مبارک 142

وحدت الاسلامیہ جمال الدین افغانی اور پاکستان

وحدت الاسلامیہ کا نظریہ جمال الدین افغانی نے پیش کیا۔اِن کا زمانہ 1838 سے لے کر 1897 تک ہے۔اِس دوران خلافتِ عثمانیہ کا زوال شروع ہو چکا تھا۔برِ صغیر میں بھی مسلمان انگریزوں کے غلام بن چکے تھے۔وہ اِسلامی ممالک جو خلافتِ عثمانیہ کے تحت تھے، وہاں بھی بے چینی اور عدم تحفظ کا آغاز ہو چکا تھا۔مسلمان ہر جگہ مغلوب ہو رہے تھے۔ ایسے میں جمال الدین افغانی نے اپنی دور بین نگاہوں سے مسلمانوں کا تاریک ہوتا مستقبِل دیکھ لیا۔وہ یہ عزم لے کر اٹھے کہ مسلم ممالک کو اِس بات پر قائل کیا جائے کہ وہ سب، مکمل نہیں تو کم از کم جزوی طور پر ضرور کِسی مرکز کے تحت رہیں۔ایسا اتحاد نو آبادیاتی طاقتوں کو مسلمانوں کے استعمار سے روک سکتا ہے۔
جمال الدین افغانی بہت چھوٹی عمر میں ہی انتہائی سیاسی بصیرت رکھتے تھے۔ انہوں نے 1856 کے دوران دہلی میں کچھ عرصہ قیام کیا۔انہوں نے وہاں کی ابتر صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے آنے والے حالات کا اندازہ کر لیا۔اِس کے بعد انہوں نے مختلف ممالک کا دورہ کرنا شروع کیا۔وہ وحدت الاسلامیہ کے اکیلے داعی تھے۔ ہر ایک ملک میں انہوں نے عوامی اور حکومتی سطح پر اپنے نظریہ کا
پرچار کیا۔ بہت سے ممالک میں عوامی سطح پر ان کو پذیرائی مِلی، جِن میں مصر، ترکی، ایران اور خود افغانستان بھی شامِل ہیں۔ان کے نظریہ کا بنیادی نکتہ دینی نہیں بلکہ سیاسی تھا۔اِسی لئے نہ صرف اِسلامی ممالک بلکہ غیر م±سلم ممالک بھی اِس سے مستفید ہوئے، جِن میں فرانس، برطانیہ اور روس سرِ فہرست ہیں۔
جمال الدین افغانی نے اپنا نظریہ 1881 میں، فرانس کے ایک جریدے میں ہی پیش کیا تھا۔وہ خود تو اِس نظریہ کے ثمرات نہیں دیکھ سکے لیکن ان کے شاگردوں نے اپنے اپنے ممالک میں اِسی نظریہ کے تحت سیاسی جماعتیں بنائیں اور عوام کی ہمدردیاں اپنے ساتھ کیں۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد نظریہ وحدت الاسلامیہ پر عرب قوم پرستی کا عنصر حاوی ہوتا نظر آ یا۔اِس میں لادینی سیاسی پارٹیاں، جیسے بعث اور ناصری پارٹیوں کی جڑیں تقریباََ ہر ایک عرب ملک میں پھیل گئیں۔آگے جا کر انہوں نے مصر، لیبیا، عراق اور مملکتِ شام میں اقتدار سنبھال لیا۔وحدت الاسلامیہ والے عناصر کو وہاں شدید قِسم کے جبر کا سامنا کرنا پڑا؛ ان کے بڑے مفکر، سیّد قطب کو قید اور سخت اذیتوں کے بعد قتل کر دیا گیا۔1967 کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی ذلّت آمیز شکست کے بعد نظریہ وحدت الاسلامیہ میں بھی بدلتی صورتِ حال کے پیشِ نظر کچھ تبدیلیاں آ گئیں۔اد ھر 1979 میں ایرانی انقلاب نے محمد رضا پہلوی، شاہِ ایران کو تخت سے اتار دیا۔ اِس کے دَس سال بعد 1989 میں افغانِستان کے مجاہدین نے سوویت روس کو افغانستان سے نِکال باہر کیا۔اِن واقعات نے اِسلامی اتحاد کے لئے کام کرنے والے تمام گروپوں کو ایک مضبوط حوصلہ بخشا اور عام مسلمانوں میں مقبولیت بھی۔
پورے مشرق ِ وسطیٰ، خاص طور پر مصر میں اخوان المسلمین بھی خم ٹھوک کر لادینی اور قوم پرست طا قتوں اور بادشاہی حکومتوں کے مقابِل صف آرا ہو گئی۔ وحدت الاسلامیہ کے حالیہ داعی، برادر ملک ترکی کے مرحوم وزیرِ اعظم، جناب نجم الدین اربکان ہیں۔جِن کا کہنا تھا کہ مسلمان اِس لئے زوال کا شکار ہیں کیوں کہ وہ مغربی اقدار کی تقلید کر رہے ہیں۔اِن کی یہ تحریک پورے یورپ، آسٹریلیا، ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور مملکتِ کینیڈا کے مسلمانوں میں بے حد مقبول رہی۔ اِنہوں نے ہی بین الاسلامی یونین Pan-Islamic Union کی تجویز پیش کی اور 1996 میں Developing 8 Countries یا D8 کی صورت میں اِس پر عمل کر دِکھایا۔ اِس میں ترکی، مصر، ایران، پاکِستان، انڈونیشیا، ملا ئیشیا، نائجیریا اور بنگلہ دیش شامِل ہیں۔واضح رہے کہ یہ اس وقت کے G8 کے مقابِل بنایا گیا تھا۔ان کی سوچ تھی کہ بتدریج مسلمان ممالک کو یورپی یونین کی طرح اقتصادی اور جدید ٹیکنا لو جی کی اکائی بنانا چاہیے۔اِس سلسلہ میں باہم ایک متفقہ کرنسی ہو (اِس کو انہوں نے اِسلامی دینار کا نام دیا)۔مشترکہ زمینی کرہ، دفاعی منصوبے، پٹروکیمیکل ٹیکنا لو جی کی ترقی، مربوط علاقائی شہری ہوا بازی اور بتدریج جمہوری اقدار سے متعلق سب کے لئے ایک قابلِ عمل معاہدہ۔ ابھی اِس عمل کی شروعات ہی ہوئی تھیں کہ 28 فروری 1997کو اِن کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ جِس نظریہ کی ضرورت جمال الدین افغانی نے محسوس کی اور جِس پر ترک وزیرِ اعظم نے عمل کر دِکھایا وہ نظریہ آج بھی اتنا ہی اہم اور ضروری ہے۔اور یقیناََ قابلِ عمل بھی ہے۔ کمی صرف اِس امر کی ہے کہ اِس کام کا بیڑا کون اٹھائے؟ ایک ایسا ملک، جہاں طاقت اور حکومت کا توازن متناسب ہو، فوج مضبوط ہو، ایٹمی قوت موجود ہو اور محل و وقوع کے اعتبار سے بھی دوست ممالک میں گھرا ہو، وہی اِس کام کا بیڑا اٹھا سکتا ہے۔ پورے عالمِ اسلام کا جائزہ لیا جائے تو یہ ملک پاکِستان کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈران صرف سطحی نظر نہ رکھیں بلکہ آنے والے وقت کی نزاکت کا اندازہ کرتے ہوئے اپنے ملک کی حفاظت اور ترقی کے ساتھ ساتھ عالمِ اِسلام کی حفاظت اور ترقی کو بھی پیشِ نظر رکھیں۔اگر نجم الدین اربکان 8 D کی بنیاد رکھ سکتے ہیں تو کیا ہم اِس سے ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتے؟ ترکی میں فوج کی آئینی برتری کے باوجود وزیرِ اعظم نے عالمِ اسلام کی بہبود کے لئے قدم اٹھایا جِس کی پاداش میں انہیں اقتدار سے ہاتھ د ھونے پڑے۔اللہ کے فضل سے ہمارے ملک میں سیاسی حکومتوں کو برتری حاصل ہے اور انہیں اِس قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔میری مقتدر حلقوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنے آپس کے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنی نظر اور سوچ کو وسیع کریں۔ وہ یہ نہ سوچیں کہ انہوں نے ایک ملک کی راہ نمائی کرنی ہے بلکہ انہوں نے عالمِ اسلام کی راہنمائی کرنی ہے۔کیسے کرنی ہے؟؟؟ یہ کالم لکھتے ہوئے میری نظر سے فرداََ فرداََ تمام اِسلامی ممالک گ±زرے، ہر جگہ مختلف قِسم کی حکومت، کہیں جمہوری، کہیں آمریت اور کہیں بادشاہت۔میں سوچ رہا تھا کہ سیاسی اور دینی لحاظ سے بادشاہت کی نفی کی جاتی ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو ” ایک شخص “ کو قائل کرنا بہ نسبت ایک ہجوم کے، زیادہ آسان ہے۔۔۔ کم از کم اس کی ٹانگ کھینچنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں