ریاست جمہوریہ/عسکریہ پاکستان 130

وقت کب ٹھہرتا ہے

وقت کبھی نہیں رکتا، موسم بہار سے خزاں، صبح سے شام پھر شب کی تاریکیوں سے صبح نو کی کرن ابھرتی ہے۔ وقت کا سفر اپنی راہ پر گامزن، چشم حیرت کیا سے کیا کہ اچھنبے میں مبتلا۔ عقل حیراں و پریشاں، دل اضطراب سے معمور مگر وقت اپنی جولانیوں میں سے بے نیاز نیرنگیاں دکھانے میں مصروف۔
کیا کبھی یہ وہم و گمان سے بھی گزرا تھا کہ ملک کی آبادی کا وہ حصہ بھی اس طرح سزاوار قرار پائے گا جو گزشتہ 75 سالوں سے اقتدار کی راہداریوں کے دروازے سے وا کرنے کے اختیارات کا دعویٰ رکھتا تھا۔ بڑے شہروں سے لے کر انتہائی مختصر ترین دیہاتی آبادی بھی اس صوبے میں جس طرح روند دی گئی وہ اس بڑے صوبے کے ہر باسی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کو اچھی طرح باور کرا گیا کہ ”ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات“۔ جب صدیوں پہلے یہ سمجھا دیا گیا کہ کسی بھی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلی جاتی جب تک وہ قوم خود اس کا ارادہ نہ کرلے تو پھر ان حالات پر دل شکستگی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
اس حیرت کدے میں کیا کیا نہ دیکھا گیا۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے صرف ایک سال بعد بابائے قوم کو شدید بیماری کی حالت میں جس ہوائی اڈہ پر اتارا گیا وہاں ایک قدیم ایمبولینس ایک نصف سے زیادہ خالی آکسیجن سلنڈر کے ساتھ اسے لے کر ہسپتال روانہ ہوئی۔ وہ قائد اعظم کا آخری سفر ثابت ہوا۔ قائد ملت لیاقت علی خان کو بھرے مجمے میں شہید کردیا گیا۔ قاتل کا کام بھی وہیں تمام کروادیا گیا کہ ثبوتوں اور شواہد کا راستہ نہ مل سکے۔ 75 سالوں میں 4 مارشل لائ، پاکستان کی دولختی، ذوالفقار علی بھٹو کو اس جرم میں پھانسی کہ کہیں مسلم بلاک کی داغ بیل نہ پڑ جائے۔ سیاست میں نا اہلوں کا نزول اور پھر اس کے بعد سے راوی زبوں حالی ہی لکھتا چلا جارہا ہے بجائے چین لکھنے کے۔ حالات کس کروٹ بیٹھیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ اس وقت تو مملکت پاکستان جس طرح عالمی توجہ کا مرکز بن چکا ہے اس میں جس ہزیمت اور رسوائی کا سامنا ہے وہ کسی بھی قوم کے لئے انتہائی ندامت کا باعث ہونا چاہئے مگر جب گروہ حقیقت سے نا آشنائی کا لبادہ اوڑھ لیں تو شاید وہ تمام راستے جو بہبود کی طرف جاتے ہیں مسدود ہو جاتے ہیں۔ حقیقت آشنائی ایک وصف اور صلاحیت ہے جو یقینی طور پر انہیں ودیعت کی جاتی ہے جو خود احتسابی پر یقین رکھتے ہیں اور یہ خود احتسابی بھی اپنی نوعیت کا ایک گمبھیر امتحان ہے جس میں وہ لوگ نہیں ڈالے جاتے جو خودپسندی اور ذاتی جاہ و جلال کا شکار ہو جائیں مگر مشکل یہ ہے کہ وقت ہر رعونت پر خاک ڈالتے ہوئے گزرتا چلا جاتا ہے۔ چاہے وہ رعونت عبادت کی بنیاد پر ہو، اختیارات کی بنیاد پر یا پھر اقتدار کی بنیاد پر۔
افہام و تفہیم سیاست کا محور ہوتے ہیں، جمہوریت مخالف کی رائے اور نظریات کے احترام کا نام ہے، پاکستان کی سیاست پچھلی کئی دہائیوں سے جن تجربات سے گزری ہے وہ پاکستان کو ایک کمزور سیاسی ڈھانچہ دینے کے علاوہ کچھ نہ کر پائی۔ نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل صرف اس وجہ سے کہ موجودہ سیاسی جماعتوں کو کمزور کیا جا سکے، نہ صرف ماضی سے لے کر اب تک سیاسی ماحول کو پراگندہ کرنے میں ہی معاونت کی ہے۔ جماعتوں کو وجود میں لانا نظریات کے تحت اور ختم کرنا صرف اور صرف جمہوری کا حق ہے۔ پاکستان کا آئین واضح طور پر تمام فریقین کے اختیارات اور ذمہ داریوں پر کھل کر بات کرتا ہے۔ جہاں آئین اور قانون کی پاسداری نہیں ہو گی اور انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا جائے گا وہیں سے بے جا دخل اندازی کی ابتداءہو جائے گی۔ اس وقت پاکستان کے حالات اس طرز عمل کا شاخسانہ ہیں جس درجہ کی حقوق انسانی کی پامالی کی گئی ہے اس نے نہ صرف پاکستان کو تہذیبی طور پر بہت پیچھے دھکیل دیا ہے بلکہ کشمیر اور فلسطین کی صف میں لاکھڑا کیا ہے، بیرون ملک پاکستانیوں کو کن خفتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس سے موجودہ حکومت مکمل طور پر بے پرواہ نظر آتی ہے۔ معاشی حالات انتہائی طور پر دگرگوں ہو چکے ہیں۔ پچھلے کئی مہینوں سے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کی خوش گمانیوں کے برعکس آئی ایم ایف کسی طرح قابو میں آتا نظر نہیں آیا۔ فیڈرل ریزو میں خطرناک حد تک کمی آچکی ہے، ملک کے اندر صنتیں بند ہو رہی ہیں، رہی سہی کسر ملک کے اندر کریک ڈاﺅن نے پوری کردی ہے جو تحریک انصاف سے وابستہ لوگوں کو سزا دینے کے لئے جاری ہے۔ خبریں یہ ہی ہیں کہ چھوٹے اور بڑے تمام کاروباریو کو سزا دینے کا عمل جاری ہے، کچھ حلقوق کے اس اصرار پر کہ پاکستان کو ان کی جاگیر کے طور پر قبول کیا جائے اور ان تمام کو میدان سے ہٹا دیا جائے جو ان کے اس دعویٰ کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔ جو رَن کا میدان سجا ہے اور جس طرح سے آزادی صحافت اور اظہار رائے پر قدغن لگائی گئی ہے وہ پاکستان کی فکری صلاحیتوں کو پامال کرنے کا ایک کثیر المقاصد منصوبہ ہے۔
9 مئی کو رونما ہونے والے واقعات یقینی طور پر انتہائی اندوہناک ہیں۔ ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے، شفاف اور تفصیلی تحقیقات اہم ترین ضرورت اور لازمی عمل ہیں۔ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں سیاسی قیدی بشمول خواتین اور کم عمر حراست میں ہیں جن پر دہشت گردی کے مقدمے چلائے جانے کے اشارے دیئے جارہے ہیں۔ اس وقت آرمی ایکٹ کے تذکرے اور ان پر اصرار بھی قانونی حلقوں میں ہیجان اور اضطراب پیدا کررہا ہے۔ ہر پاکستانی شہری پریشان ہے کہ وہ کس وقت اور کس وجہ سے غدار ٹھہرایا جانے کے بعد اس آرمی ایکٹ کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ قانونی ماہرین کے مطابق سویلین پر اس ایکٹ کے تحت مقدمے نہیں چلائے جا سکے۔ عدالت عالیہ میں ملک کے سینئر ترین وکلاءکی جانب سے پٹیشن داخل ہونے کے بعد یہ بھی سامنے آیا ہے کہ 100 سے زیادہ افراد فوج کی حراست میں دیئے جا چکے ہیں جن پر مقدمات کی تیاری ہے۔ کیا اس طرح انصاف کے تمام تقاضے پورے کئے جا سکیں گے۔ سوال یہ اہم ترین ہے کہ کیا ان عوامل اور عناصر کا تعین کرلیا گیا ہے کہ جو اس واقعہ میں حقیقی طور پر ملوث ہیں کیا اس معاملہ پر بھی غور کرلیا گیا ہے کہ اس تمام قضیہ میں فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے اگر یہ جیسے کہ تمام حکومتی نمائندوں کے ساتھ ساتھ آئی ایف پی آر کا بھی کہنا ہے کہ یہ ایک منظم اور سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت کروایا گیا۔ تو کیا اس کا علم انٹیلی جنس اداروں کو نہیں ہوا اس کا سدباب کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔ کیا یہ پورا عمل صرف سیاسی میدان سے تحریک انصاف کو بے دخل کرنے کے لئے کیا گیا ہے جو حالات سامنے آئے ہیں وہ تو عیاں یہ کررہے ہیں کہ جس تحریک انصاف کے رکن نے بھی پریس کانفرنس کرکے لاتعلقی کا اظہار کیا وہ 9 مئی کو تحریک انصاف کا رکن ہونے کے باوجود بری الذمہ ٹھہرا دیا گیا۔ وقت بدل چکا ہے کئی دہائیوں قبل کے اطوار اب بوسیدہ ہو چکے ہیں، افسوس یہ ہے کہ ذی شعور سبق سکھ لیتا ہے ماضی سے، اس وقت پاکستان کے حالات کئی فریقوں کو کم فہم کے دائرے میں لاکھڑا کررہے ہیں، شاید انہیں اندازہ خود بھی نہیں ہو رہا ہے کہ سیاست کے ہاتھ لمبے ہیں وہ کسی کو بھی کسی طریقہ سے شکنجے میں جکڑ کر اپنے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے سبب بنا سکتے ہیں۔ مگر بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ وقت ہے، گزر ہی جاتا ہے، نقش قدم چھوڑتا ہوا، تاریخ گواہ بن جاتی ہے، وقت بہت سے رنگ اور راز کھول دیتا ہے۔ وفاﺅں اور بے وفاﺅں سے صفحات بھر جاتے ہیں، پاکستانی قوم اپنی افواج سے محبت کرنے والی قوم ہے۔ جس نے بھی یہ کھیل کھیلا ہے وقت کے ہاتھوں یقینی طور پر ہار مقدر ٹھہرے گی اس کا۔
بقول ناصر کاظمی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں