اکثر اس طرح کے بیانات سننے میں آتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو اور جو لوگ اس پر یقین رکھتے ہیں وہ بلاشبہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کیونکہ گزشتہ 76 سالوں میں تو کوئی ایسا دور نہیں آیا کہ جب ووٹ کو عزت دی گئی ہو، ہمیشہ ووٹ کی عزت لوٹی جاتی رہی ہے، اور حکومتیں لانے والے اپنی ڈوریاں ہلاتے رہے۔ عوام کی اکثریت جمہوریت کی حامی تو ہے لیکن ہر دور میں آمریت کو ہی دل و جان سے قبول کیا ہے اور جمہوریت جب جب ملک میں آئی تو ہمیشہ آمریت کی شکل میں ہی رہی اور اسے کبھی پنپنے بھی نہیں دیا گیا، پنپنے تو اس صورت میں بھی دیا جاتا کہ اگر یہ جمہوریت کی اصل شکل بھی ہوتی۔ ووٹ کو عزت یہ ہے کہ ملک میں کسی بھی شخص یا پارٹی کو برسر اقتدار لانا نا تو عوام کے بس میں ہے اور نا ہی کسی جماعت کے بس میں ہے کہ وہ بالکل غیر جانبدار ہو کر عوام کی حمایت اور ان کے ووٹوں سے برسر اقتدار آسکے، ناممکن ہے، وہ جمہوریت جو آمریت کی آڑ بنی رہی 76 سال میں اس کا دورانیہ آدھے سے تھوڑا زیادہ ہو گا، ورنہ آدھا دور تو فوجی اقتدار میں گزرا ہے۔ جس میں چار جنرل برسر اقتدار رہے۔ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف، لوگ IJM کا مطلب سمجھتے ہیں، اسلامک جمہوریہ پاکستان جب کہ اس کا مطلب ہے ”اسلامی جنرل پاکستان“ ہر مرتبہ جنرل نے جمہوری حکومت کو ہٹانے کی ایک ہی وجہ بتائی کہ جمہوری حکومت ملک کے لئے خطرہ ہے، کرپٹ ہے اور نا اہل ہے اور جب بھی الیکشن کرائے گئے اور جس پارٹی کو کامیاب کرایا گیا دوسری پارٹیوں نے اسے دھاندلی قرار دیا اور عوام نے بھی اعتماد کا اظہار نہیں کیا اس کی وجہ یہ رہی کہ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ جماعت الیکشن سے نہیں جیتتی اسے جتایا جاتا ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد ووٹ تو ڈالنے جاتی ہے لیکن اس کے ذہن میں یہی ہوتا ہے کہ ہمارے ووٹ کا کوئی فائدہ نہیں، پارٹی وہی آئے گی جسے لانا ہے، صرف تفریحاً اور الیکشن کی گہماگہمی کا مزہ لینے کے لئے لوگ ووٹ ڈالنے جاتے ہیں، یہ ہے ووٹ کی عزت۔
76 سال سے ملک صرف سازشوں پر چل رہا ہے، حسین سہروردی شہید جو صرف ایک سال پاکستان کے وزیر اعظم رہے، ایک سازش کے تحت ان پر غداری کا مقدمہ اور پھر پراسرار حالات میں وفات ہوئی کیونکہ ان کا تعلق سابقہ مشرقی پاکستان سے تھا اور ایوب خان اور مغربی پاکستان کے لیڈروں کو کسی طور ایک بنگالی کی سربراہی منظور نہیں تھی۔ ایوب خان کا مارشل لاءاس کے بعد الیکشن میں ایوب خان اور فاطمہ جناح کا مقابلہ ووٹ کی عزت وہاں بھی دیکھنے میں آئی کہ ایک بھاری اکثریت میں جتنے والی کو کس طرح ہرایا گیا۔ جب کہ مشرقی پاکستان میں وہ کامیاب ہوئیں کیونکہ وہ حصہ بے غیرتوں کے ہاتھوں میں نہیں تھا۔ یہ تھی ووٹ کی عزت۔ پھر 71ءمیں یحییٰ خان کے دور میں الیکشن شیخ مجیب مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوا لیکن اسے حکومت دینے سے انکار کردیا گیا کیونکہ وہ بنگالی تھا جب کہ بانیان پاکستان میں بنگالیوں کی تعداد زیادہ تھی، یہ ملی ووٹ کو عزت کے جو اکثریت میں تھا اس کی جیت ماننے سے انکار اور مغربی پاکستان میں اپنی حکومت قائم کرنے کے لئے بھٹو نے اس حصے کو ہی الگ کرادیا اور بھٹو صاحب کو بغیر منتخب ہوئے۔ وزیر اعظم بنا دیا گیا بلکہ وہ خود ہی زبردستی وزیر اعظم بن گئے اور اپنی حکومت بنالی اور آج کل اس طرح کی سازش کرکے بلاول کو زبردستی کا وزیر اعظم بنانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اس ملک میں جمہوریت کا نام صرف ایک ڈھکوسلہ ہے، قوم مسلسل بے وقوف بن رہی ہے، نا ہی کوئی لیڈر اور نا ہی کوئی سیاسی پارٹی اپنی مرضی سے حکومت بنا سکتی ہے، اور چلا سکتی ہے۔ یہاں کا نظام ایک مثلث پر چل رہا ہے۔ یہ مثلث کچھ اس طرح ہے کہ سیاست دانوں کے گلے میں ڈوری اقتدار پر قابض اصل لوگوں کے ہاتھ میں ہے اور ان اصل لوگوں کے گلے میں ڈوری بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے اور یہ بات اگر لوگوں کی سمجھ میں آجاتی تو ملک کا یہ حشر نا ہوتا اور یہی مثلث ایک حقیقت ہے۔
سیاست دان ملک پر قابض، اصل ادارے اور بڑی طاقتیں سب کچھ اسی طرح ہوتا ہے، ووٹ کا تو کہیں نام و نشان نہیں، صرف دنیا کو دکھانے کے لئے ہی الیکشن ہوتے ہیں، کسی بھی ملک کی تقدیر کا فیصلہ وہاں کے عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ 24 کروڑ چاہیں تو ملک کو ترقی کی طرف لے جائیں یا تباہی کی طرف، 24 کروڑ میں سے معلوم ہوتا ہے کہ 15 کروڑ کو تو کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے اور ان میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں اور باقی میں سے اکثریت ناکارہ اور کرپٹ سو بریانی کی پلیٹوں اور پراٹھوں پر پارٹی میں شامل ہو کر حمایت کے نعرے لگائیں تو پھر یہی ہوتا ہے کہ تین مرتبہ کرپشن کے الزام میں نکالا ہوا نا اہل اور دو مرتبہ کا سزا یافتہ جس پر عدالتی حکم ہونے کے باوجود عمل نا ہو سکا، چوتھی مرتبہ گدھوں پر حکومت کرنے آرہا ہے اور گدھے سرجکھائے گھاس کھانے میں مشغول ہیں، ووٹ کو عزت دینے کے بجائے اس کی بتی بنا کر اور۔۔۔ اور سگریٹ بنا کر پی جاﺅ۔
179