عمران خان توجہ فرمائیے! 220

ویت نام کے بعد افغانستان سے امریکہ کی رسوائی اور واپسی

آج 31 اگست 2021ءہے، افغانستان میں جاری امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ اختتام کو پہنچی۔ جس میں لاکھں امریکیوں سمیت افغانی عوام بھی لقمہ اجل بنے۔ کھربوں ڈالر کا جدید ترین اسلحہ استعمال کیا گیا۔ امریکہ نے انخلاءکے وقت ملینز آف ڈالر کا جنگی سازو سامان ناکارہ بنادیا۔ وہاں پر موجود ٹرینڈ کتوں کو بھی بے حال چھوڑ گئے اور کابل ایئرپورٹ کے ایئر ٹریفک کنٹرول سسٹم کو بھی نقصان پہنچا گئے۔ اب کئی دن تک وہاں سے پروازیں نہیں اڑ سکیں گی اور نہ ہی لینڈ کر سکیں گی۔ امریکہ کو اس جنگ میں دنیا بھر میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے حتیٰ کہ اس کے نیٹو اتحادی بھی تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں۔ امریکہ کے تھنک ٹینک اس انخلاءکو امریکہ کی شکست سے تعبیر کررہے ہیں۔ ہر طرف سے امریکی افواج کے انخلاءکو ہدف تنقید بنایا جارہا ہے۔ امریکہ نے اس سے پہلے ویت نام میں بدترین شکست کھائی اور جاتے ہوئے تمام سوک سسٹم کو ناکارہ کردیا۔ یہ حرکات یوروپین ممالک کا معمول تھیں۔
جب پرتگال نے موزمبیق سے انخلاءکیا اسے آزادی دی تو اسی طرح کی اوچھی حرکت کی اور ان کے تمام شہری نظام کو بند کردیا گیا، ناکارہ بنا دیا گیا۔ جس کی سزا وہ آج تک بھگت رہے ہیں، اسی طرح کی حرکتیں دوسرے ممالک میں بھی کی گئیں جہاں جہاں یوروپین نے قبضہ کر رکھا تھا۔ یہ حرکات ان کے اذہان کی پالیدگی کا کھلا اظہار ہیں۔ یہ ترقی یافتہ مہذب قومیں جب اپنی گراوٹ پر آتی ہیں تو پھر ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ تاریخی طور پر بھی اگر دیکھا جائے تو انہوں نے کمزور اقوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں۔
امریکہ کی 9/11 کے بعد افغانستان پر چڑھائی کا کوئی جواز نہیں تھا۔ کیوں کہ اس واقعہ میں کوئی افغانی ملوث نہیں تھا۔ صرف اور صرف اسامہ بن لادن کا بہانہ بنا کر یہ تمام جنگ مسلط کی گئی۔ اس کے علاوہ عراق، لیبیا، شام، یمن اور فلسطین میں بھی مختلف حیلوں بہانوں سے خصوصی طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کہیں بھی ایسا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے کہ یہ ممالک امریکہ کے خلاف کسی سرگرمی میں ملوث رہے ہوں۔ یہ صرف اور صرف اسلام دشمنی پر مبنی ردعمل ہے۔
انسانی تاریخ دنیا کے طاقتور اتحادی ممالک کی اس شکست کو ہمیشہ یاد رکھیں گے اور آئندہ آنے والی ان کی نسلیں امید ہے کہ اس طرح کے واقعات سے اجتناب کریں گی۔ اس بیس سالہ جنگ میں امریکہ نے صرف اور صرف مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کو مارا ہے جو کہ ان کا ہدف تھا اور یہ کئی سال پہلے ہو چکا ہے لہذا اگر یہی ہدف تھا تو امریکہ کو بہت پہلے یہاں سے چلے جانا چاہئے تھا کہ آج ہونے والی رسوائی سے بچ جاتا۔ افغانستان کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ اسے ہزاروں میل دور سے آکر سکست دینا ناممکن رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی طاقتور ملک یہ حرکات کر چکے ہیں اور ذلیل و رسوا ہو کر بھاگ چکے ہیں۔
افغانیوں کو بیس سال تک طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کرنے پر خراج تحسین پیش کیا جانا چاہئے اور آنے والی حکومت کو سب سے اہم کام یہ کرنا ہے کہ افغان سرزمین کو کسی ہمسائے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینی اور صرف جدید بنیادوں پر افغانستان کی بنیاد رکھنی ہے۔ جہاں انسانی حقوق کو بنیادی اہمیت حاصل ہو تاکہ دنیا ان کو تسلیم کرے وگرنہ افغانستان کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں