نیو یارک: امریکا میں ہونے والی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ بوتل میں دستیاب پانی میں پلاسٹک کے ذرات شامل ہوتے ہیں جو مختلف قسم کے عارضے کا سبب بن سکتے ہیں۔
فری ڈونیا میں واقع اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک میں ہونے والی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں میں دستیاب مختلف برانڈز کے پینے کے پانی میں پلاسٹک کے ذرات پائے گئے ہیں، پلاسٹک کے یہ ننھے ذرات ہاضمے سمیت دیگر بیماریوں کا باعث بنتے ہیں جب کہ اس سے جسم میں کئی قسم کی پچیدگیوں کے پیدا ہونے کا احتمال رہتا ہے۔
یونیورسٹی آف نیویارک میں صحافتی تنظیم کی معاونت سے ہونے والی تحقیق میں شعبہ کیمیاء کی پروفیسر شیری میسن نے بوتلوں سے حاصل پانی کا تجزیہ کیا جس کے لیے 9 ممالک سے منگوائی گئی پانی کی 250 بوتلوں کو لیب میں بھیجا گیا جس کے نتیجے نے سب کو حیران کردیا، ہر لیٹر پانی میں 10 پلاسٹک کے ذرات پائے گئے جس کی موٹائی انسانی بال سے زیادہ تھی۔
شیری میسن نے میڈیاسے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پانی کی ہر بوتل میں پلاسٹک کے ذرات پائے گئے تھے، یہ بوتلیں تمام ہی مشہور برانڈز کی تھے اور کسی بھی برانڈ کا پانی پلاسٹک ذرات سے پاک نہیں تھا تاہم پلاسٹک کی بوتل میں پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم کا کہنا ہے کہ تمام ہی کمپنیاں حفظان صحت کے مروجہ اصولوں کی مکمل پاسداری کرتی ہیں اور منرل واٹر کے تمام ہی پلانٹ جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں، جس میں غلطی یا کوتاہی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پانی میں پلاسٹک کی اقسام ہولی پروپائلین، نائلون، پولی اسٹریرن، پولی ایتھائلین اور پولیسٹر سمیت دیگر اقسام موجود تھیں تاہم ابھی ان ذرات کا جسم پر مضر اثرات کا مشاہدہ نہیں کیا گیا ہے، ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا پلاسٹک کی یہ مقدار انسانی جسم کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے یا نہیں، تاہم پلاسٹک کے ذرات کے انسانی جسم پر مضر اثرات سے انکار ممکن نہیں۔
دوسری جانب عالمی ادارہ صحت نے پینے کے پانی میں پلاسٹک کی موجودگی کے انکشاف کے بات مائکرو پلاسٹکس کے انسانی جسم پر مضر اثرات کا جائزہ لینے کے لیے تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے ڈبلیو ایچ او کی ٹیم ماہرین صحت کی معاونت سے جلد ہی کام شروع کرے گی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی پروفیسر شیری میسن نے ملک بھر میں فراہم کیے جانے والے پانی کا بھی تجزیہ کیا تھا جس میں پلاسٹک سمیت دیگر مضر اجزاء کی موجودگی کا انکشاف کیا گیا تھا۔