افسوسناک صد افسوسناک 260

پاکستان اور کورونا وائرس

سال 2020ءکے آخری کوارٹر میں جب کورونا وائرس کی بازگشت سنائی دی تو دنیا بھر میں اس سے بچاﺅ کی تیاریاں شروع ہو گئیں ہر ملک نے اپنے شہریوں کو آگے آنے والی صورتحال سے ہوشیار کرنا شروع کردیا مگر پاکستان میں حکومتی سطح پر کہا گیا کہ ہم لاک ڈاﺅن نہیں کر سکتے کیونکہ یہاں غربت کا عالم یہ ہے کہ اگر لوگ کرونا سے بچ بھی گئے تو بھوک سے مر جائیں گے یوں پاکستان میں کاروبار زندگی چلتا رہا اور کسی نے اس وائرس کی جانب توجہ تک نہ دی۔
2021ءکے اوائل میں جب اٹلی اور یورپی ممالک میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی اس وقت بھی تمام خبریں سننے اور حقائق جاننے کے باوجود کسی نے ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں کیا۔ ہاں البتہ سندھ حکومت نے وائرس کے بچاﺅ کے لئے وفاقی حکومت سے ٹکر لے کر لاک ڈاﺅن ضرور کیا مگر وہ بھی سیاسی لاک ڈاﺅن تھا۔ حقیقی لاک ڈاﺅن نہیں کیا گیا اور حسب روایت یہاں بھی سیاست کی گئی اور کراچی کو لاک ڈاﺅن کرکے بزنس کمیونٹی سے بھاری رقوم بٹوری گئیں جب کہ اندرون سندھ کوئی کاروباری بندش نہ کی گئی۔ یعنی تفریق کے ذریعہ اور زبان کی بنیادوں پر کمیونٹیز کو تقسیم کردیا گیا۔ کراچی جو کہ ویسے ہی باہر سے آنے والوں کی بڑی تعداد کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے اور پاکستان کا بزنس حب ہے۔ کسی حد تک پابندیوں کا شکار رہا مگر سندھ کے دیگر اضلاع اور بقیہ پاکستان ایس او پیز سے بری الذمہ قرار پائے جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے آج صوبہ پنجاب سرحد حتیٰ کہ وفاقی دارالحکومت سخت لاک ڈاﺅن کا سامنا کررہے ہیں۔ سندھ حکومت تمام تر الزامات پنجاب اور دیگر صوبوں سے کراچی آنے والوں پر دھر رہی ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے اس بات کا بھی عندیہ دیا گیا ہے کہ سندھ کے بارڈر کو بند کردیا جائے۔ مگر مثل مشہور ہے کہ ”پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت“ کے مصداق جس کورونا نے لوگوں کے گھروں میں گھسنا تھا گھس چکا ہے۔
یورپین ممالک، امریکہ اور کینیڈا میں تو لوگوں کو ویکسین برابر دی جارہی ہے مگر دردناک اور خوفناک صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں وینٹی لیٹرز موجود نہیں۔ جو ہیں وہ موجودہ ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہیں، نہ ہی ویکسین کے بارے میں کوئی مثبت اقدامات نظر آرہے ہیں یوں پاکستان مستقبل میں بہت بڑی مشکل سے دوچار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
مقام افسوس یہ ہے کہ آج بھی پاکستان کے عوام اس وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے آج جب کہ اسکول بند کر دیئے گئے ہیں، بینکوئیٹ ہال اور دیگر کاروبار مکمل لاک ڈاﺅن کی جانب بڑھ رہے ہیں، پاکستان کے عوام خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ لوگوں پر جرمانے کئے جارہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی قانون نافذ اس لئے کررہے ہیں کہ ان کی جیب گرم ہوتی رہے وگرنہ حقیقت میں لوگوں کو سخت قوانین کی گرفت کے ذریعہ ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے کا کام ہماری حکومت کے بس کا نہیں۔ ہر جانب کرپشن کا دور دورہ ہونے کے سبب پاکستان میں کسی بھی چیز خواہ وہ عام کے مفاد میں ہی کیوں نہ ہو کو نافذ کرنا قدرے مشکل بلکہ نہ ممکن ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ عوام اور حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی جو فضا پیدا ہو چکی ہے اس کے سبب پاکستان میں حالات کو قابو کرنا ناممکن نظر آتا ہے اور یوں آنے والا وقت پاکستان کے لئے اپنے دامن میں نہایت مشکلات لئے دکھائی دے رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں