قلم اور تلوار کو تشبیہہ دی جاتی ہے کہ کس کی کاٹ دیرپا اور تیز تر ہے۔ تاریخ کے جھروکوں سے اگر اس فلسفے کا جائزہ لیں تو معلوم پڑتا ہے کہ قلم تلوار سے کہیں زیادہ پاورفل چیز ہے۔ تلوار سے جانی نقصان ہونے کا احتمال ہوتا ہے جب کہ قلم کے غلط استعمال سے معاشرے اخلاقی طور پر تباہ ہو جاتے ہیں اور جو قومیں قلم کا مثبت استعمال نہیں کرتیں وہ زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔ وہ دنیا سے پیچھے رہ جاتی ہیں جیسا کہ ہمارے ہاں ہوا ہے۔
قلم سے مراد صحافت بہت ذمہ دارانہ پیشہ ہے۔ ایک زمانہ تھا جب صحافی معاشرے کا با عزت فرد سمجھا جاتا تھا کیوں کہ اس کا قلم سچ اگلتا تھا۔ کسی کی پگڑی نہیں اچھالتا تھا۔ کسی کو بلیک میل نہیں کرتا تھا۔ قلم کو بیچتا نہیں تھا۔ قلم کو ایک مقدس ہتھیار کے طور پر معاشرے کی اصلاح کے لئے استعمال کرتا تھا لیکن پھر زمانے نے کروٹ لی اور آہستہ آہستہ ہمارے ملک کے کرتا دھرتاﺅں نے ان کی بولی لگانی شروع کردی اور ان صحافیوں کو جو عشروں سے بھوکے تھے کے آگے لفافے پھینکے اور اپنی مرضی کی تحریریں لکھوائیں اور جو نہیں بکے انہیں عہدوں کا لالچ دیا گیا اور یا پھر صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ یہ گھناﺅنا کھیل ہمارے ہاں 1985ءکے بعد شروع ہوا جب نواز شریف کی سیاست میں انٹری ہوئی کیوں کہ نواز شریف خاندانی طور پر بزنس مین تھا اور اس نے فوج کا کندھا استعمال کرکے سیاست کے میدان میں تو چھلانگ لگا دی لیکن اس میں اپنے حامی اور وفادار لوگوں کو جیب کی گھڑی بنا کر رکھنے کے لئے رشوت کو متعارف کروایا گیا۔ صحافیوں کو پلاٹ الاٹ کئے گئے۔ بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر تعینات کیا گیا۔ صحافیوں کی سفارش پر نوکریاں دی گئیں، اعلیٰ افسران کے تقرر و تبادلہ جات ان کے مرہون منت ہوتے تھے اور یہ لوگ ان افسران سے ناجائز کام کروا کر بھاری رقوم وصول کرتے تھے۔
اگر کوئی کمیشن بنایا جائے جو صرف اور صرف اس بات کا جائزہ لے کے 1985ءکے بعد دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے والے صحافیوں کے ذرائع آمدن کو ایمانداری سے چیک کرے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ پچھلے تیس پینتیس سالوں میں سنپولئے اژدھے بن چکے ہیں جو قوم اور ملک کا خون چوس رہے ہیں۔ یہ لوگ سیاستدانوں، حکمرانوں، بیوروکریسی، کاروباری حضرات حتیٰ کہ تمام طبقہ کے لوگوں کو بلیک میل کررہے ہیں۔ صحافی اپنی ساکھ کھو چکا ہے اب عام پڑھا لکھا آدمی ان کی بات پر کان نہیں دھرتا، تمام صحافی ایک جیسے نہیں ہیں مگر دیانتدار لوگ آتے میں نمک کے برابر ہیں۔
خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے ظہور میں آنے کے بعد تو وہ لوگ بھی اینکر اور تجزیہ نگار بن گئے ہیں جن کی بات گھر والے نہیں سنتے اور مانتے۔ پرائیوٹ چینلز شر پھیلانے کا کام کررہے ہیں، مہمانوں کو آپس میں لڑایا جاتا ہے، سخت جملے اگلوائے جاتے ہیں، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی معمول کی بات بن چکی ہے۔ یہ صرف ”ریٹنگ“ Rating حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد میں ”محسن بیگ“ نامی نام نہاد صحافی نے ایک پرائیویٹ چینل پر بیٹھ کر وزیر اعظم اور وفاقی وزیر کے خلاف نازیبا گفتگو کی اور پھر اس پینل میں شامل تمام لوگوں نے بڑا انجوائے کیا۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ پروگرام ”بیگ“ کو سلاخوں کے پیچھے لے جائے گا۔ یہ شخص عمران خان سے ناجائز کام کروانے میں ناکام ہونے کے بعد اس کی کردار کشی کررہا ہے، اکثر اس کو پروگراموں میں اینٹی عمران خان گفتگو کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے اور ہمیشہ بے تکی باتیں کرتا ہے۔
محسن بیگ کی بدمعاشی کی انتہا دیکھئے کہ وہ گرفتار کرنے آنے والی ٹیم کو زدوکوب کرتا رہا بلکہ ان پر فائر کردیا جو کہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کو تمام عمر جیل میں سڑنا چاہئے کیوں کہ یہ لوگ ہی اصل صحافیوں کو بدنام کررہے ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا عافیہ صدیقی پر امریکن فوج نے الزام لگایا تھا کہ اس نے ایک امریکی فوجی پر پسٹل پوائنٹ کی ہے اور اس پاداش میں وہ پوری عمر کے لئے امریکی جیل میں قید ہے۔ اس پر الزام غلط ہے یا ٹھیک قطع نظر اس کے نقطہ یہ ہے کہ آپ ریاستی ادارے کے لوگوں پر کیسے فائرنگ کر سکتے ہیں اور ان کے اہلکار کو زخمی کر دیتے ہیں اس قسم کے بدقماشی صحافیوں کی حمایت نہیں کرنی چاہئے بلکہ ان کی مذمت کرنی چاہئے۔
عدلیہ سے بھی گزارش ہے کہ آپ لوگ بھی ہوش کے ناخن لیں اور ایسے ملزمان کو کیفر کردار اور مثال بنانے کے لئے انصاف پر مبنی فوری فیصلے کریں۔ جس کی توقع عبس ہے۔
301