بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 148

پاکستان کا میڈیا، آئین و قانون

جیسا کہ اعلان کیا گیا ہے کہ عام انتخابات 8 فروری 2024ءکو ہو رہے ہیں۔ نواز شریف کو واپس بلا لیا گیا ہے اور عمران خان کو نا اہل قرار دے کر الیکشن سے باہر رکھنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ملک میں ماضی اور مستقبل میں کئے جانے والے فیصلہ ساز اپنی پلاننگ کررہے ہیں، ہر شخص اپنی Face Saving چاہتا ہے۔ عمران خان کے بارے میں یہ بات ببانگ دہل کہی جارہی ہے کہ انہوں نے اپنے 3 سالہ دور حکومت میں کچھ کیا نہ کیا مگر سسٹم کو ننگا کرکے رکھ دیا۔ وہ عوام جو فوجی ٹرک دیکھتے ہی پاک فوج زندہ باد کے نعرہ مارتی تھی آج فوج کو مادر زاد گالیاں دے رہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف فوج سے ڈیل کے نتیجہ میں ہی ملک میں واپس آئے ہیں، کوئی کہہ رہا ہے کہ ہمارے موجودہ آرمی چیف نواز شریف سے ملاقات میں ہونے والی ریکارڈنگ کے سبب بلیک میل ہو رہے ہیں، کچھ بھی ہو یقیناً دال میں کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔ جہاں تک پی ٹی آئی کا سوال ہے، اسے کسی دوسرے روپ میں سامنے لا کر حکومت بنانا یقیناً ملکی حالات کے لئے درست فیصلہ نہیں ہوگا۔ اس بارے میں عام رائے یہی ہے کہ تمام پارٹیز کو الیکشن لڑنے کا موقعہ ملنا چاہئے۔ اگر ہماری So Called غیر سیاسی فوج یا یوں کہئے کہ ہمارے فوجی جنرل غیر سیاسی ہیں تو پھر انہیں ثابت کرنا ہو گا کہ وہ غیر سیاسی ہیں وگرنہ عوام الیکشن کے فیصلوں کو قبول نہیں کرے گی۔
آج کا پنجاب بدل چکا ہے، آج کا نوجوان خاموشی کے ساتھ کھیل تماشہ دیکھ رہا ہے اور شاید درست وقت کے انتظار میں ہے، عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ ہمارے فوجی جنرلز نے میڈیا، سیاستدانوں، مولویوں میں موجود اپنے ہم خیال اور پیسہ کے پجاری افراد کو استعمال ہونے کے لئے تیار تو کر لیا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن سے قبل اور الیکشن کے روز پولیس اور فوج کس طرح پبلک کے دباﺅ کو ہینڈل کرتی ہے کیونکہ آج کے پاکستانی عوام، نوجوان اور بزنس مین کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر غلط لوگوں کا چناﺅ کیا گیا تو بچا کچا پاکستان بھی اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکے گا۔ عمران خان نے پنجاب کے عوام کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہے اور اب دیگر صوبوں کی طرح پنجاب کے عوام بھی اچھے حکمرانوں کو ڈھونڈ رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھ چکے ہیں کہ گزشتہ 73 سالوں سے ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا گیا ہے۔ یوں پنجاب کے عوام کا پی ٹی آئی کے ساتھ گٹھ جوڑ فوج میں بھی تقسیم کا باعث بنا ہے کیونکہ پنجاب کے ہر دوسرے گھر کوئی نہ کوئی فرد پاک فوج کا حصہ ہے اور یوں اب معاملات اتنے آسان نہیں رہے، نہ ہی نواز شریف کے لئے پلین فیلڈ موجود ہے اور نہ ہی کسی اور جماعت کے لئے البتہ عمران خان کی شہرت ہمارے حکمرانوں کی غلطیوں کے سبب عروج پر پہنچ چکی ہے۔ کاش کہ عمران خان نہ خود استعفیٰ دیتے، نہ اپنے ممبرز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے، نہ پنجاب اور صوبہ سرحد کی اسمبلیوں کو توڑتے تو آج وہ ایک مضبوط ترین اپوزیشن لیڈر کے ساتھ ساتھ دیگر تمام سیاسی جماعتوں کو لوہے کے چنے چبوا دیتے مگر ان کی سیاسی ناعاقبت اندیشی نے انہیں بہت پیچھے دھکیل دیا۔
آج کی صورتحال میں ہمارے ملک میں کسی پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ نہ میڈیا قابل بھروسہ ہے، نہ عدالتوں میں بیٹھے جج صاحبان، کسی بھی ملک کے یہ حالات ہوں جیسے پاکستان کے ہیں جس کو ملک کے دو ادارے میڈیا اور جسٹس سسٹم چیزوں کو درست سمت پر ڈال دیتے ہیں مگر ہمارے پاکستان کا معاملہ انوکھا ہے۔ یہاں ڈرانے اور اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ چادر اور چار دیواری کی کوئی حیثیت نہیں۔ اپنے مفادات کے آگے آنے والی ہر چیز کو جائز اور ناجائز طریقہ سے اپنے حق میں بولنے پر مجبور کردیا جاتا ہے چنانچہ جو صحافی بولنے کی جرات رکھتے ہیں، وہ بھی خاموش ہیں اور محب وطن حق اور سچ کا بول بالا چاہتے ہیں وہ بھی خوفزدہ ہیں۔ ہمارے فوجی جنرلز کو سوچنا ہوگا کہ یہی وقت ہے کہ یا تو وہ صاف و شفاف الیکشن کروا کر سرخرو ہو جائیں یا پھر ایک بار پھر مشرقی پاکستان والی صورتحال ملک میں پیدا کرکے خود کو عوام کے غیص و غضب کا نشانہ بنانے کے لئے تیار ہو جائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں