پاکستان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جو اپنے بہترین معاشی دور میں ہمیشہ دوسرے ممالک کے لئے مددگار ثابت ہوا۔ ایک وقت تھا جب پاکستان کی معیشت بنگلہ دیش، دبئی، جرمنی اور دوسرے کچھ ممالک سے بہت بہتر تھی، ایک وقت یہ بھی تھا جب جرمنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا تھا، 1945ءسے لے کر 1955ءتک دس سال جرمنی کے ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگ کیمپوں میں پناہ گزین رہے تھے، 1962 تک جرمنی امریکی امداد پر چلنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا، دنیا کے 14 ممالک جرمنی کو امداد دیتے تھے، اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان امداد دینے والے ملکوں میں پاکستان بھی شامل تھا۔ ایوب خان کے دور میں پاکستان نے 20 سال کے لئے جرمنی کو 12 کروڑ روپے قرض دیا تھا، جرمنی کی حالت اتنی بدترین تھی کہ جرمن حکومت نے پاکستان سے دس ہزار ہنر مند مانگے تھے جو پاکستان نے دینے سے انکار کر دیئے تھے۔ تاریخ کا مطالعہ کرو تو پاکستان میں قرض ایوب خان کے دور میں بھی تھا پر قرض کی شرح بہت کم تھی۔ جو آہستہ آہستہ ادا کی گئی تھی، پر آج جو پاکستان کی معیشت سخت حالات سے دو چار ہے جس کی اہم وجہ پاکستان میں موجود کرپشن ہے۔ اگر ہم جائزہ لیں کہ پاکستان کی معیشت کا زوال عروج پر کب آیا تو معلوم ہو گا یہ زوال جنرل پرویز مشرف کے دورے حکومت کے بعد آیا۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستان کی معیشت دن بدن اچھی اور بحالی کی جانب بڑھ رہی تھی اور پاکستان میں قرض بھی بہت حد تک کم ہو گیا تھا، پاکستان میں بے روزگاری کی بھی شرح کم ہو رہی تھی، پر بدقسمتی سے جنرل پرویز مشرف کے حکومت سے جانے کے بعد پاکستان دن بہ دن کرپشن میں ڈوبتا چلا گیا اور قرض جیسے عذاب پاکستان پر کثیر تعداد میں نازل ہو گیا۔ جس کا حساب کتاب آج تک کسی کو نہیں معلوم کہ قرض گیا تو گیا کہاں، نہ تو اچھے اسپتال بنائے گئے اور نہ ہی اچھے اسکول بنائے گئے جو کسی بھی ریاست کے شہری حقوق میں سب سے پہلے آتا ہے۔ جنرل صاحب کے دور پر جو اسکول اور اسپتال پر کام کیا گیا اس کے بعد سے کسی حکومت نے مزید ان چیزوں پر کام نہیں کیا اور پاکستانی عوام اس بات کو سوچنا بھی نہیں چاہتی کہ اگر جنرل صاحب کے دور کے بعد اتنی قرض کی شرح بڑھی تو قرض کو لگایا کہاں گیا؟
اب یہ صورتحال ہے کہ عمران خان کی موجودہ حکومت کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عمران خان قابل تعریف وزیر اعظم ہیں جو پاکستان کے اس کرپشن سے ڈوبے ہوئے نظام کو درست کرنے میں بہترین جدوجہد کررہے ہیں۔ اگر اگر آج دنیا پاکستان کا مثبت چہرہ دیکھ رہی ہے تو اس کا پورا کردار عمران خان کو جاتا ہے۔ عمران خان کی حکومت پاکستان کے بدترین بحران کے وقت میں آئی ہے۔ مئی کے اعداد شمار کے مطابق پاکستان پر بیرونی قرضوں کا حجم 105 ارب ڈالر سے زائد ہو گیا ہے جو موجودہ حکومت کے کچھ قرض لینے کے بعد ہوا۔ پر اس بات کا یقین ہے کہ موجودہ حکومت قرض کو صرف ملک کے لئے استعمال کررہی ہے۔ اگر پاکستان کے اس بحران کے بوجھ کو کم کرنا ہے تو موجودہ حکومت کے لئے پانچ سال حکومت کرنا بہت کم ہو گئے۔ عمران خان کی حکومت پہلے ہی پاکستان کی کمزور معیشت کے حالات کے زوال سے پریشان تھی اب جو کہ کرونا وائرس جیسی وبا جس نے پوری دنیا کی طاقت وار ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یہ وبا پاکستانی معیشت کے حالات کے لحاظ سے ایک نئے اور سخت امتحان سے کم نہیں ہے۔ پاکستان کی حکومت کو اس وبا سے نمٹنے کے لئے سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستان میں کرونا وائرس کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس میں متاثر مریضوں کی تعداد دس ہزار کے قریب ہو گئی ہے جب کہ اموات 167 تک پہنچ گئی ہیں۔ پاکستانی عوام کی مشکلات کے پیش نظر وزیر اعظم کی جانب سے احساس پروگرام کے ذریعے مستحقین میں 44 ارب سے زائد کی رقم تقسیم کی گئی ہے جو کہ سات دن میں 144 ارب 19 کروڑ روپے تقسیم کئے جا چکے ہیں۔ ان اموات اور متاثر مریضوں کی تعداد کو روکنے کے لئے پاکستان میں لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے غریب طبقے کو شدید مشکلات پیش آرہی ہیں۔ ان چیزوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے موجودہ حکومت بہتر سے بہتر حل کے جانب کام کررہی ہے آج سے پہلے اتنا احساس پہلے کہ حکمران میں نہیں تھا۔
ان تمام صورت حال کے پیش نظر عالمی مالیاتی فند (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لئے ارب 38 کروڑ ڈالرز کے ریلیف پیکیج کی منظوری دے دی ہے۔ آئی ایم ایف کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کرونا کے پاکستانی معیشت پر انتہائی اہم اثرات مرتب ہوئے ہیں حکومت پاکستان نے کرونا وائرس کا پھیلاﺅ روکنے کے لئے تیزی سے اقدامات کئے۔ اس مقصد کے لئے معاشی پیکیج کا بھی اعلان کیا گیا اور حکومت عوامی صحت پر اخراجات میں اضافہ کررہی ہے۔ پاکستان کے دوسرے ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات اس مشکل گھڑی میں ان حالات کو نمنے کے لئے چین، امریکا، برطانیہ شانہ بشانہ ہیں چین نے پاکستان کو طبی امداد فراہم کی اور ساتھ ہی چین کی طبی ماہرین کی ٹیم نے پاکستان کا دور بھی کیا۔ جہاں انہوں نے ڈاکٹرز، سرکاری، اہلکاروں، شعبہ صحت کے حکام سے ملاقاتیں کیں۔ دوسری طرف امریکہ بھی پاکستان کی مدد کے لئے آگے آگیا ہے۔ امریکہ 80 لاکھ ڈالرز سے زائد کی امداد کے ساتھ پاکستان کی مدد کی۔ برطانیہ نے کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے پاکستان کو 26 لاکھ 70 ہزار پاﺅنڈ امداد کی اور پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر ڈاکٹر کرسچن ٹرنر نے اس بارے میں اردو زبان میں خصوصی ویڈیو پیغام جاری کیا۔ برطانوی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے جو پوری دنیا میں کروڑوں لوگوں کو متاثر کر چکی ہے اس غیر معمولی صورتحال کی وجہ سے اہم اپنے برتاﺅ میں تبدیلی لا رہے ہیں، مجھے یقین ہے پاکستان کرونا وائرس جیسے مسئلے سے باہر نکلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک طرف غیر ملک کے لوگ پاکستان کی کمزور معیشت کے مدنظر پاکستان کی مدد کررہے ہیں تاکہ پاکستان اس وبا سے غریب لوگوں کی ہر طرح سے مدد کر سکے۔ دوسری طرف پاکستان میں کرپشن اتنی بلند سطح پر ہے کہ اس وبا کے موقع پر بھی دوسرے ملک سے دی ہوئی امداد سے کرپشن کی جارہی ہے جو بہت افسوس کی بات ہے اس خبر کی جانب سے عمران خان نے کہا کہ انسداد ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی جب کہ آرڈیننس کے ذریعے اسمگلنگ میں ملوث افراد کے لئے بھی سخت کارروائی ہوگی۔
پاکستانی عوام کو عمران خان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ پاکستان معاشی بحران، بھوک و افلاس، کرپشن کے خلاف درپیش آنے والی مشکلات کو حل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ پاکستان کی عوام کو بھی چاہئے کہ وہ کرپشن کرنے والے پہلے کے حکمران کے خلاف موجودہ حکومت کی آواز بنے تاکہ موجودہ حکومت پاکستان کے عوام کے کھائے ہوئے پیسے کھانے والوں کو ان کے انجام تک پہنچانے میں آسانی ہو کسی ملک کی عوام کی یکساں ہونا کتنی بڑی طاقت ہوتا ہے یہ پاکستانی عوام آج تک اس بات کا نہیں معلوم جو کہ کرپشن کے خلاف جنگ کے لئے بہت ضروری ہے آج اگر پاکستان کی معیشت کا دیوالیہ بنا ہوا ہے اس کا سبب سابق حکمراں کا بے بنیاد قرض لینا اور ان قرض کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنا ہے۔ کرپٹ حکمران نے اپنی نسل بہ نسل کے لئے اتنا بنا لیا ہے کہ ہماری آنے والی نسلوں کو تو ان کی اصل حقیقت معلوم بھی نہیں ہو گی اگر دیکھا جائے پاکستان کی تاریخ میں پاکستان کی معیشت بہتر سطح پر کب کب آئی تو پاکستان کے جنرلوں کے دورے حکومت میں معیشت کو بہتر سطح پر دکھا گیا ہے اور اگر بات جمہوریت کی کریں تو جمہوریت کے نام پر اب تک پاکستانی عوام کو پاگل ہی بنایا ہے۔ عمران خان کے لئے یہ بھی ایک اہم چیلنج ہے کہ وہ ثابت کریں کہ جمہوری حکومت میں عوام کی خدمات کیا ہوتی ہیں۔ آج بھی پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی غریب طبقے پر آباد ہے جو یہ جانتے ہی نہیں کہ ان کی ایک ووٹ کی طاقت پاکستان کا مستقبل بدل سکتی ہے اور اس کی اہم وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ پاکستان کو ایسے حکمران کی ضرورت ہے جن کے باپ دادا کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہو ایک عام انسان کی تکلیف ایک عام انسان ہی سمجھ سکتا ہے۔ اللہ پاک پاکستان کو آنے والے وقت میں بھی ایمان دار حکمران عطا فرمائیں۔ آمین
