پاکستان معرض وجود میں آیا تو قائد اعظم محمد علی جناحؒ پہلے گورنر جنرل بنے جنہوں نے پاکستان کو ایک سیکولر ملک کے طور پر دنیا کے نقشہ پر قائم کیا۔ مگر اُن کی صحت نے انہیں مہلت نہ دی اور وہ جلد خالق حقیقی سے جا ملے۔ یوں تو پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ہی سازشوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ انگریز سرکار نے بھارت سے اپنا بوریا بسترا تو سمیٹ لیا مگر ہندو مسلم فسادات کا وہ بیج بویا کہ آج تک نفرتوں کے پودے پروان چڑھ رہے ہیں۔ آج ہم یہ کہیں کہ پاکستان کا وجود ناگزیر تھا کیونکہ ہندو اور مسلم دو الگ الگ قومیں تھیں لیکن اگر یہ سوچیں کہ متحدہ بھارت ہوتا تو صورتحال کیا ہوتی یقیناً اتنی خراب نہ ہوتی جو آج ہے۔
مسلمان الگ تقسیم در تقسیم کے مرحلوں سے گزر رہا ہے۔ ہندوﺅں اور پنڈتوں نے الگ مذہبی منافرت پھیلا رکھی ہے اور ہندو ذات پات کے گرداب سے باہر نہیں نکل پا رہے۔ دوسری جانب سکھوں کے اپنے مسائل ہیں جو بھارت کو نکیل ڈالے ہوئے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر متحدہ بھارت ہوتا تو کیا مسلمان یوں دست و گریباں ہوتے؟ فرقوں میں تقسیم ہوتے؟ پاکستان میں لسانی بنیادوں پر ایسا قتل عام شاید نہیں ہوتاکیونکہ ہندوﺅں اور مسلمان دونوں ہی ایک دوسرے کے خوف سے ہی سہی متحد رہتے اور حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔ مگر آج تک اس ملک میں ملاﺅں کی حکومت نہ آسکی۔ لوگ ملاﺅں کے پیچھے نماز تو پڑھتے ہیں مگر انہیں ملک کی باگ ڈور دینے کے لئے تیار نہیں کیونکہ ہم پاکستانی مذہبی لبادے میں وہ تمام وہ کام کرنا چاہتے ہیں جن کی اسلام میں ممانعت ہے۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے مگر کہنا پڑے گا کہ ہمارے علمائے دین کی بڑی تعداد اپنے ذاتی ایجنڈوں پر کام کررہی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ لال مسجد، مولانا فضل الرحمن اور ملک کے دیگر علمائے دین کی اصل حقیقت کیا ہے۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو سرسید احمد خان کی مسلمانوں کو انگریزی کی تعلیم دینے کی مخالفت، پرنٹنگ پریس اور لاﺅڈ اسپیکر کی مخالفت جیسے ملاﺅں کے احتجاجوں سے پورے دنیا واقف ہے مگر افسوس ہے اس ترقی یافتہ دور میں بھی آج کا ملا کورونا وائرس کے خلاف کہہ کر کھڑا ہو رہا ہے کہ مساجد، خانہ خدا اور روضہ رسول کو کھول دیا جائے۔ یوں اسلام اور سائنس ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں۔ اللہ اس کے رسول اور اس کی کتاب کے لئے ہر مسلمان کی جان قربان ہو مگر ایسے حالات میں جب کہ وبائی امراض نے پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ سوشل فاصلہ رکھنا نہ مساجد میں ممکن ہے اور نہ نماز کے دوران۔ ہمارا تو ایمان ہے کہ اگر صف میں ذرا سا بھی فاصل رہ گیا تو شیطان بیچ میں آجاتا ہے۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ شیطان مسجد میں کیسے آ جاتا ہے؟ اگر شیطان مسجد میں آسکتا ہے تو پھر تو کورونا وائرس بھی مسجد میں آنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ ہماری کچھ مساجد تو یقیناً بڑی صاف شفاف اور صحت کے اصولوں پر پوری اترتی ہیں مگر کچھ مساجد ایسی ہیں کہ جن میں چوہے دوڑ رہے ہیں اور کارپٹ میں سے بدبو آرہی ہوتی ہے۔ اور پھر بھی ضروری نہیں کہ آپ کے ساتھ صف میں کھڑا ہونے والا نمازی مگر صحت مند ہو۔ ایسے حالات میں کیا یہ مناسب نہیں کہ آپ خود کو بھی بیماری سے محفوظ رکھیں تاکہ صحت مند رہ کر مساجد کو آباد رکھ سکیں نہ کہ آپ کسی مرض کا شکار ہو کر اگلے جہاں میں سدھار جائیں اور مساجد ویران ہو جائیں۔ احتیاطی تدابیر، صفائی ستھرائی تو ہمارے نصف ایمان کا پیغام ہے۔ میری دعا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ سے کہ ہمارے علمائے دین کو ہدایت اور عقل سلیم دے کہ یہ وہ فیصلہ کر سکیں جن سے اسلام کی صحیح ترجمانی ہو سکے نہ کہ ترقی کے اس دور میں نئے دور کا مسلمان بھی جہالت کی نذر ہو جائے۔
470