پاکستان اپنے قیام کے بعد آج سب سے مشکل ترین صورتحال سے گزر رہا ہے۔ اس کی سلامتی اس وقت مکمل طور پر سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ پاکستان کب تک دنیا کے نقشہ پر قائم و دائم رہے گا۔ اتنا کمزور اور نازک پاکستان تو 14 اگست 1947ءوالے روز بھی نہیں تھا جب ان کے پاس نہ ڈھنگ کی فوج تھی اور نہ ہی جدید ہتھیار۔ بلکہ دوسری جنگ عظیم میں زنگ آلود اسلحہ تا، نہ ہی اس وقت پاکستان کوئی ایٹمی ملک تھا مگر پھر بھی وہ آج کے اس پاکستان کے مقابلے میں بہت مضبوط، توانا اور مستحکم تھا کیونکہ اس وقت پاکستان میں بسنے والے جذبہ ایمانی جو خودمختاری اور آزادی سے سرشار تھے، ان میں منافقت، کرپشن اور بے ایمانی نہیں تھی۔ آج کا پاکستان جو کہنے کو تو عالم اسلام کا واحد ایٹمی ملک ہے مگر وہ تو عمان اور بحرین جیسے چھوٹے ملکوں کے مقابلے میں بھی زیادہ کمزور ملک بن گیا ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے۔ روس جیسی سپر پاور کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے پاکستان کی حالت ہیروئین پینے والے لاغر شخص کی سی ہو گئی ہے جسے بہانے کے لئے ہوا کا ایک جھونکا ہی اب کافی ہے۔ ملک کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ ملک کے انصاف کے نظام کا پوری طرح سے حرام خوری میں مبتلا ہونا ہے اور دفاعی ادارے کا اپنا کام چھوڑ کر ملکی سیاست میں مرکزی کردار ادا کرنا ہے۔ یہ وہ دو بیماریاں ہیں جس سے ہنستے بستے پاکستان کو تباہی و بربادی کے آخری نہج پر پہنچا دیا ہے۔ پاکستان کا اگر انصاف کا نظام ہی ٹھیک طرح سے کام کرتا تو ملک کو نہ تو اندرونی دشمنوں سے کوئی خطرہ لاحق ہوتا اور نہ ہی باہر کے دشمنوں سے۔۔۔؟
سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے کام سے انصاف نہیں کررہا ہے، ملک کی اس تباہی کا سب سے بڑا ذمہ دار سپریم کورٹ آف پاکستان کو ہی ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اتنے بڑے بڑے غیر آئینی کام ہوتے رہے اور سپریم کورٹ کے ججز ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس کسی کو بھی بلانے کے اختیارات ہیں، وہ صدر پاکستان، وزیر اعظم اور آرمی چیف کسی کو بھی طلب کرسکتا ہے۔ اس سے جواب طلبی کرسکتا ہے اور ہر کوئی سپریم کورٹ کا حکم ماننے کا تابع ہے، پابند ہے مگر افسوس کے ہمارے ہاں دوسروں کی کمزوری کو اپنے پاس رکھ کر اسے ریمورٹ کی طرح سے استعمال کرکے اگلے کو قابو میں کرنا ہے اور اپنی انگلی کے اشارے پر چلانا ہے۔
پاکستان کی ساری سیاست ہی بلیک میلنگ کے گرد گھوم رہی ہے۔ پاکستان کے تمام حساس اداروں کا اب سب سے بہترین ہتھیار ہی بلیک میلنگ بن گیا ہے۔ اس کے ذریعے یہ پارٹیاں بنواتے بھی ہیں، لڑواتے بھی ہیں اور اتحادی حکومتوں کا حصہ بھی بناتے ہیں اور اسی طرح سے بنی بنائی حکومتوں کو گھر بھی بجھواتے ہیں مگر افسوس کے بلیک میلنگ کے ذریعے دہشت گردی کی وارداتیں نہ تو رکوائی جا سکتی ہے اور نہ ہی ختم کروائی جا سکتی ہے جس کی تازہ ترین مثال پشاور پولیس لائن کی مسجد کا بم دھماکہ ہے جہاں 180 کے قریب پولیس والے دھماکے سے شہید ہو گئے۔ یہ سب ہمارے حساس اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان حساس اداروں کو حکومت سازی کے چسکے پڑ چکے ہیں اور یہ اب اپنی ساری انرجی ان ہی کاموں پر صرف کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کی ویڈیو بنواتے ہیں، آوازیں ریکارڈ کرتے ہیں، پھر بلیک میلنگ کرتے ہیں، کہتے ہیں نا کہ کبھی کبھی دوسروں کو بلیک میل کرنے والے خود بھی بلیک میل ہو جاتے ہیں، اب سیاسی جماعتوں نے بھی بعض سرکاری افسروں کی ویڈیو بنوالی ہیں جس کے ذریعے اب انہیں بلیک میل کیا جارہا ہے اور اس بلیک میلنگ کے نتیجے میں ہی تحریک انصاف کو دیوار سے لگا کر دوسروں کو آگے لانے کا موقع دیا جارہا ہے۔
ملک اس وقت آگ اور خون کے قریب پہنچ چکا ہے، اگر اب بھی ملک کے پاسبانوں کو ہوش نہیں آیا تو پھر ہاتھ میں کچھ بھی نہیں بچے گا اور دوبارہ پاکستان غلامی کے ختم نہ ہونے والے اندھیروں میں چلا جائے گا۔
131