گزشتہ چند دنوں میں پاکستان میں وفاقی اور صوبائی سطح پر جو انتہائی مدّوجز رونما ہوئے ہیں وہ سرعت سے حالات کی تبدیلی کا اشارہ دے رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی تحلیل کردی گئی ہے۔ تحریک انصاف اور ق لیگ کی مشترکہ حکمت عملی نے حزب اختلاف کے لئے جس حیرت کدہ کی تعمیر کی اس نے بلاشبہ 13 جماعتی اتحاد کو ایک انتہا درجے کے اچھنبے سے دوچار کیا بلکہ اپنی صفوں میں انتشار کی ممکنات سے بھی آگاہ کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ تحریک اعتماد کا مرحلہ جس خیر و خوبی سے انجام دیا گیا اس نے یقینی طور پر اتحادی حکومت میں انتہائی مایوسی اور فکرمندی کی لہر دوڑا دی۔ وہ تمام مفروضات کہ پرویز الٰہی اسمبلی تحلیل نہ کرنے کے سلسلے میں مزید کئی تاویوں کا سہارا لیں گے، دم توڑ گئے اور تحریک انصاف نے پنجاب کے بعد خیبرپختونخواہ کی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھی روانہ کردی۔
اس وقت پاکستان میں انتہائی سرد موسم ہونے کے برعکس سیاسی ماحول حد درجہ کی گرما گرمی کا شکار نظر آرہا ہے۔ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کے ناطے تقریباً 60 فیصد آبادی کا مرکز ہے۔ اگر پختونخواہ کی آبادی کو بھی شامل کرلیا جائے تو بھی تہریک انصاف اسمبلیاں توڑ دینے کی وجہ سے ملک کے آدھے سے زیادہ آبادی کے درمیان 90 دنوں میں انتخابات لازم قرار دینے چاہئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دونوں صوبوں میں نگراں حکومت کا تقرر کیا جانا بھی ضروری ہوگا۔ جس کی مشاورت کے لئے حکومتی اور حزب اختلاف دونوں کی رضامندی درکار ہو گی جس میں اختلافات کی شروعات ہوچکی ہے۔ الیکشن کمیشن ان تمام مراحل کے لئے کس قدر تیار ہے یہ ابھی واضح نہیں ہو سکا۔ ق لیگ نے مستقبل میں تحریک انصاف کا بھرپور ساتھ دینے کا عندیہ دے دیا ہے۔ تحریک انصاف نے اس سلسلے میں پرویز الٰہی کو تحریک انصاف میں اپنی پارٹی کو ضم کرنے کا مشورہ سامنے آیا ہے۔ اگر ق لیگ کا یہ دھڑہ اس پر آمادہ ہو جاتا ہے تو یہ ایک سیاسی غلطی کا ارتکاب ہوگا۔ معاونت اور مفاہمت سیاسی جماعتوں کا قدیم طریقہءکار رہا ہے اور ایک دوسرے میں ضم ہو جانا گویا اپنی شناخت کو دفن کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس کے علاوہ پرویز الٰہی پرانے سیاستدان کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ انہیں اس مسئلہ پر انتہائی سوچ و فکر سے کام لینا ہوگا۔
تحریک انصاف میں بھی اس معاملے پر تحفظات سامنے آئیں گے اگر پرویز الٰہی تحریک انصاف میں شامل ہونے کی حامی بھرتے ہیں تو وہ یقینی طور پر اپنے لئے ایک اہم منصب کی خواہش رکھیں گے اور یہ ان تمام لوگوں کے لئے جو ابتداءسے تحریک انصاف کی جدوجہد میں شامل ہیں، قابل قبول نہیں ہوگا اگر یہ انضمام انجام پاتا ہے تو دونوں جماعتوں کے حق میں یقینی طور پر آئندہ وقت کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ پرویز الٰہی کو یہ اچھی طرح اندازہ ہے کہ ان کا سیاسی مستقبل تحریک انصاف سے وابستہ ہونے میں محفوظ ہے اور یہی وجہ ہے کہ باوجود پیچیدگیوں کے انہوں نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ عمران خان کے حق میں قربان کرنے کو ترجیح دی۔
تحریک انصاف جسے سیاست میں نووارد اور نوآموز کا درجہ دیتے ہوئے 13 جماعتی اتحاد پی ڈی ایم وجود میں آیا نے اس وقت سیاست میں جو پیچ و خم اختیار کئے ہیں اس نے سیاسی ماحول میں ایک افراتفری پھیلا دی ہے۔ تحریک انصاف کا اسمبلیاں تحلل کرنے اور اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد یہ اعلان کہ اب وہ قومی اسمبلی میں واپس جا کر وزیر اعظم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کی تحریک شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے نے یکایک اسپیکر قومی اسمبلی کو مزید 35 استعفے قبول کرنے پر مجبور کردیا ہے جو اس سے قبل یہ اعلان کررہے تھے کہ جب تک انفرادی طور پر ہر ممبر ان کے سامنے آکر اپنے استعفیٰ کی تصدیق نہیں کرے گا اس کا استعفیٰ قبول نہیں کئے جائیں گے۔
اتحادی حکومت ویسے ہی بے شمار پریشانیوں میں فی الوقت گھری ہوئی ہے۔ معاشی حالات روز بروز دگرگوں ہوتے جارہے ہیں۔ آئی ایم ایف اپنی شرائط سے کسی طور پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں وہ تمام حکمت عملیاں جو اسحاق ڈار کے ہاتھ میں تھیں غیر موثر نظر آرہی ہیں۔ وہ تمام دوست ممالک جو امداد مہیا کرنے میں مددگار رہے ہیں وہ بھی اب پاکستان کی سیاسی عدم استحکامی کا کھلے انداز میں تذکرہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ جنیوا میں منعقد ہونے والی ڈونرز کانفرنس میں 9 ارب کے لگ بھگ امداد ابھی صرف اعلانات کی حد تک محدود ہے۔ اس سے ویسے بھی قومی مالیاتی خسارے میں بہتری کی کوئی صورت نکلنے کی امید نہیں کیونکہ یہ امداد خصوصی طور پر بحالی سیلاب زدگان کی مد میں دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
دوسری طرف بالاخر الیکشن کمشنر نے مجبوراً سندھ میں بلدیاتی انتخاب کا اعلان کرنے کے بعد 15 جنوری 2023ءکو اس عمل کو انجام دے دیا۔ سندھ حکومت اور اس کی اتحادی ایم کیو ایم کی لاتعداد گزارشات اور اس کے بعد دھمکیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے اس کا انعقاد کردیا۔ آخر وقت تک بے یقینی کی صورت حال کہ انتخابات مقررہ وقت تک ہو پائیں گے اور کچھ تمام سیاسی ماحول کو دیکھتے ہوئے کراچی کے ووٹرز انتہائی بددلی سے قلیل تعداد میں باہر نکلے۔ انتخابات سے کچھ وقت قبل تک احتجاج کا اعلان دیتے ہوئے وہ تمام متحدہ کے دھڑے جو دوبارہ کسی کے اشارے پر یکجا ہوئے نے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا۔ جس نکتہ کو لے کر ایم کیو ایم نے احتجاج کیا اس کے متعلق سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس آخری وقت میں یہ خیال کیوں آیا؟ پچھلے تین سال تک آپ حکومت کا حصہ رہے پھر گزشتہ 9 ماہ سے آپ اتحادی حکومت میں شامل ہیں تو اس مسئلہ کو اس سے قبل حل کیوں نہیں کروایا گیا۔ بظاہر نظر یہ آرہا ہے بلکہ حالات یہ کہہ رہے ہیں کہ متحدہ اپنی تمام کشتیاق جلا چکی۔ کراچی کا لسانی نعرہ بھی اب اس کا ساتھ چھوڑتا دکھائے دے رہا ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے مطابق پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف پہلے دوسرے اور تحریک انصاف پی پی پی پر دھاندلی کے الزام شدومد سے عائد کررہی ہیں۔ جماعت اسلامی نے پچھلے دو سالوں میں تحریک انصاف کی کراچی کو نظر انداز کرنے ک ے عمل سے مکمل فائدہ اٹھایا ہے اور ایک دفعہ پھر کراچی میں قدم جما لئے ہیں۔ اہلیان کراچی نے تمام گزشتہ سیاسی حکومتوں سے مایوس ہو کر تحریک انصاف کا بھرپور ساتھ دیا تھا اور امیدیں وابستہ کی تھیں۔ تحریک انصاف نے اس خیرمقدم کا لحاظ نہیں کیا اور اس وقت اسے اپنی نا اہلیوں کا جواب موصول ہو گیا ہے۔ کے ایم سی کا میئر اکثریت رکھنے والی جماعت سے مقرر کیا جائے گا جس کے لئے 184 ووٹ درکار ہوں گے۔ اگر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں اس وقت الحق ہو جاتا ہے تو کراچی کی انتظامیہ سندھ حکومت کے ہاتھوں سے نکل سکتی ہے۔ پچھلے پندرہ سالوں میں پیپلزپارٹی نے اندرون و شہری سندھ میں کچھ بہتری کی صورت حال نہیں پیدا کی۔ روشنیوں کا شہر کراچی کھنڈر کی شکل پیش کررہا ہے۔ بے شمار مسائل سندھ میں منہ کھولے کھڑے ہیں جن کا کوئی حل سندھ حکومت نکال نہیں پا رہی۔ اس وقت خاص طور پر کراچی والوں نے جماعت اسلامی کی طرف توجہ دی ہے اگر کراچی کی انتظامیہ جماعت اور تحریک انصاف کی مشترکہ مشینری کے اختیار میں آتی ہے تو شاید اہل سندھ اور کراچی اطمینان کے کچھ سانس لے سکیں۔
آئندہ کچھ ہی دنوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے متعلق معاملات کا تعین ہوتا نظر آرہا ہے۔ کیا الیکشن کمیشن 70 فیصد آبادی کا الیکشن الگ اور بقیہ آبادی کا الگ الیکشن کروانے کی سوچ رہا ہے اور کیا اس کا متحمل پاکستانی حکومتی خزانہ ہو سکتا ہے۔ اتحادی حکومت کو سیاست قربان کرنے کا نعرہ بلند کرنے پر عمل کرتے ہوئے ریاست پاکستان کی دشواریوں اور مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے اب انتخابات کی طرف جانا ہوگا۔ اقتدار سیاست کا ایک جزو ضرور ہے مگر اس سے سیاسی سفر کو دوام حاصل ہوتا ہے وگرنہ تاریخ کے صفحات تو ملک کے مجاہدوں، غازیوں، شہیدوں اور وطن کو آباد کرنے والوں اور بربادی کی طرف لے جانے والوں سے پُر ہیں۔ ہم کہاں اور کس باب میں شامل ہونا چاہتے ہیں یہ فیصلہ ہر ریاست کے سیاستدانوں اور اس کی جماعت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی کرنا ہوتا ہے۔
129