عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 111

پاگل کو نہیں، پاگل کی ماں کو مارو!

پاکستان کے مقتدر حلقوں کے لئے الیکشن 2024ءکے نتائج کسی بھی طرح سے ایک ڈراﺅنے خواب سے کم نہیں اور اب انہیں ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ اب جناح کا پاکستان پوری طرح سے بدل چکا ہے ان کی دہشت اور وحشت کا چورن اب مزید بکنے والا نہیں ان کی پوری دو سال کی دہشت بربریت فسطائیت کے غبارے میں سے ہوا اس الیکشن کے نتائج نے پوری طرح سے نکال دی ہے۔ پاکستان کی بھپری ہوئی عوام نے پہلی بار اپنی نفرت اور غم و غصے کا اظہار اپنی ووٹ کی طاقت کے ذریعے کیا اور پہلی بار پاگل کے ساتھ ساتھ اس کی ماں کو بھی پوری طرح سے نہ صرف دھتکار دیا بلکہ بیچ چوراہے پر انہیں برہنہ بھی کرلیا۔ الیکشن کے یہ نتائج نوشتہ دیوار ہے جسے اچھی طرح سے پڑھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرتے ہوئے اس کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے مگر افسوس صد افسوس کے ساتھ مجھے یہ کہنا اور لکھنا پڑ رہا ہے کہ بقول خواجہ آصف کے کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیاءہوتی ہے۔
لیکن لگ رہا ہے کہ نہ تو پاگل کو شرم اور حیاءچھو کر گزری ہے اور نہ ہی پاگل کی ماں کو۔۔۔ ورنہ وہ نوشتہ دیوار کو پڑھ کر کچھ عقلمندی کا مظاہرہ کرتے جس طرح سے جہانگیر ترین نے غیر معمولی دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے الیکشن کے نتائج کو دیکھتے ہوئے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی وہ ملکی عوام کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ چکے ہیں کہ جعلسازی کے ذریعے بنائی جانے والی حکومت معمولی جھونکوں کا بھی مقابلہ نہیں کر سکے گی لیکن افسوس پاگل اور اس کی ماں جان کر انجان بن گئے اور الیکشن کے نتائج کو چوری کرکے عوام کی جانب سے ہارے جانے والے مسلم لیگی رہنماﺅں کے علاوہ پی پی پی کے رہنماﺅں کو بھی کامیاب کروا دیا۔ دوسرے معنوں میں انہوں نے ملکی عوام کے اپنے سے کئے جانے والے اس نفرت کو ٹھکرا دیا اور اس طرح سے کرکے ملکی عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ تم لوگوں کے ووٹوں کی کوئی اہمیت نہیں، ہم جب چاہیں اسے قدموں کی ٹھوکر بناسکتے ہیں۔ اس طرح سے خود سے نفرت کرنے والی ملکی عوام کے عزت نفس پر براہ راست حملہ کرکے ایک طرح سے انہیں مشتعل کرنے کی کوشش کی جو کسی بھی طرح سے درست نہیں اور اس طرح سے ایک طرح سے عوام کو بہکا کر انہیں قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی ترغیب دی گئی ہے۔
آج جناح کا پاکستان بدل چکا ہے مگر پاگل اور اس کی ماں اس کو ماننے کو تیار ہی نہیں، ان کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان ان کی ریاست ہے، وہ ان سے اجازت یا پھر مشورہ لئے بغیر کس طرح سے بدل سکتی ہے۔ آج ذوالفقار علی بھٹو کا یہ انتخابی نعرہ ”طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں“ پوری طرح سے اپنی روح کے مطابق ثابت ہوا۔ آج ملکی عوام کو اس بات کا بھی یقین ہو گیا ہے کہ ان کے ووٹ کی طاقت ہی ریاستی مظالم، ریاستی دہشت گردی اور ریاستی نا انصافی کا نہ صرف راستہ روک سکتی ہے بلکہ اس جڑ سے ختم بھی کرسکتی ہے، یہ ریاستی دہشت گردی اور مظالم ملکی عوام کو ان کے جائز حقوق کے مطالبات سے دست بردار کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں اس لئے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اسی طرح سے الیکشن کے موقع پر پاگل اور اس کی ماں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے حقیقی رہنماﺅں کو ہی اپنے ووٹوں سے طاقتور بنوائیں جو آپ مظلوموں کی آواز بنیں جس طرح سے 2024ءکے الیکشن میں آپ لوگوں نے جرات مندی اور قومی غیرت کا مظاہرہ کیا حالانکہ ماں نے اپنے پاگل بچوں کو کامیاب کروانے کے لئے پوری ریاستی مشینری کا استعمال کرکے ہزاروں لوگوں کو پابند سلاسل کیا۔
ہزاروں مقدمات درج کروائے گئے، لیکن وہ ساری ریاستی جبر الیکشن کے نتائج کی وجہ سے بے سود ہوگئی کیونکہ ملکی عوام نے خود پر جبر کرنے والوں سے بدلہ یا پھر انتقام اپنے ووٹ کی طاقت سے ان کے گھروں میں گھس کر انہیں شکست دینے کی شکل میں لے لیا۔ اب بھی پاگل اور اس کی ماں اسی غلط فہمی میں ہیں کہ کچھ نہیں بدلہ، جناح کا پاکستان ویسے ہی چل رہا ہے اور ویسے ہی چلتا رہے گا کیونکہ اس کی لگامیں ہمارے ہاتھوں میں ہے، ان نادانوں کو کون سمجھائے کہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی آنکھیں بند کرلینے سے اس کی موت نہیں ٹلتی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں