ناظرین باتمکین آج کل ہمارے ملک میں ہر شخص کرپشن کرپشن کھیل رہا ہے اور یہ کھیل اس قدر دلچسپ ہے کہ ہر فرد اس کھیل میں خود کو بھی ایک کھلاڑی ہی محسوس کرتا ہے۔ یہ دراصل دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتا ہے جیسے کے بچپن میں بہت سوں نے چور سپاہی کھیل کھیلا ہوگا۔ اس میں کچھ چور بنتے ہیں اور کچھ سپاہی مگر یہی کھیل کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جو کل چور تھا تو وہ آج سپاہی بن جاتا ہے اور سپاہی چور بنتا ہے۔ اس کھیل کے اصول وصول کچھ نہیں ہوتے، دونوں ہی لوٹ مار میں برابر کے ہی ہوتے ہیں۔ گزشتہ دور میں بھی یہ کھیل کھیلا جاتا ہے اس میں چور نہیں ہوتے تھے بلکہ ٹھگ ہوا کرتے تھے۔ اس لفظ کو سن کر لوگوں کے دماغ میں ایک چالاک، مکار آدمی کی تصویر اُبھرتی تھی جو جھانسا دے کر لوگوں سے قیمتی چیزیں ٹھگ لیتا تھا۔ ہندوستان میں 19 ویں صدی میں جن ٹھگوں سے انگریزوں کو پالا پڑا تھا وہ اتنے معمولی لوگ نہیں تھے۔ اب اس ابتدائیہ کے بعد ہم آپ کو ان پرانے ٹھگوں کی داستان سنائیں گے اور پھر آپ اس آئینے میں اپنے زمانے کے ٹھگوں کی تصویر ملاحظہ کریں گے اور عش عش کریں گے کہ کس طرح 19 ویں صدی کے ٹھگ حضرات جو کوئی معمولی آدمی نہیں تھے، بھینس بدل کر اس 21 ویں صدی میں آپ کے سامنے جلوہ گر ہو رہے ہیں اور یہ بھی کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں یہ اعلیٰ مرتب ٹھگر صاحبان صاحب اقتدار، وزارت عظمی، صدارت اعلیٰ، اقتدار کی راہ داریوں میں رونق افروز یہ سیاست کے گرگ باراں دیدہ یہ انتظامیہ کے بلند ترین ستون، یہ مقننہ کے اعلیٰ دفاع، یہ صحافت کے روشن چراغ، یہ امارات و سعادت کے گریرزدان غرض یہ کہ یہ وہ کہ جن کے بغیر کارخانہ قدرت بقلو ان کے چندا محال تھا۔ یہ وہ آج ان کے بغیر پرندہ پر نہ مارتا تھا، یہ وہ کہ ان کے باپ دادا ہتھوڑا لے کر پیدا ہوئے مگر ان کے منہ میں سونے کے کفگیر غرض یہ کہ
بعد از خدا برگ یہ ہی تھے
تو داستان شروع ہوتی ہے، ہم آپ کو پرانی شراب کو نئی بوتل میں نہ صرف دکھائیں گے بلکہ پلا کر اتنا مدہوش کر دیں گے کہ آپ بھی ان تھگوں کے ساتھ ساتھ کردار ادا کرتے نظر آئیں گے گویا ہم آپ کو 3-D نہیں بلکہ اس سے کہیں آگے “D” میں گھلے ملے ملیں گے۔ تو قصہ شروع ہوتا ہے۔
ٹھگوں کے بارے میں دلچسپ معلومات 1839ءمیں شائع ہونے والی کتاب ”کنفشز آف ٹھگ“ یعنی ”ایک ٹھگ کے اعترافات“ (شاید آج آئندہ کچھ سالوں میں اس کا تازہ ترین ایڈیشن مطالعہ کرتے نظر آئیں گے جو ہمارے اعلیٰ مرتب ٹھگز حضرات لکھ کر یا لکھوا کر لندن، امریکہ، کینیڈا، دبئی اور جدہ سے شائع کرائیں گے) سے ملیں گی۔ یہ کتاب مصنف پولیس سپرنٹنڈنٹ فلپ میڈوز ٹیلر نے تحریر کی ہے بلکہ اسے قلم بند کیا ہے۔ یہ پانچ سو صفحہ کی کتاب دراصل ٹھگوں کے ایک سردار امیر علی خان کا اعتراف یا اعترافی بیان ہے (آپ جو تازہ ترین 21 ویں صدی کی کتاب پڑھیں گے وہ لاتعداد ٹھگز تحریر کریں گے اور یہ کتاب ہزاروں صفحات کی ہوں گیں)۔ اس کتاب کی طرح ہمارے دور کی کتابیں بھی کوئی فکشن نہیں تھیں، خیالی نہیں ہوگی بلکہ یہ ”پاکستانی ٹھگوں“ کی ”فرسٹ پرسن اکاﺅنٹ“ یقنی ان ہی کہانیاں ان ہی کی زبانی ہوں گیں۔ کتاب کے اصل انگریز مصنف کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے امیر علی ٹھگ سے پوچھا کہ ”تم نے کتنے لوگوں کو لوٹنے کے دوران مارا“ تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ”اور صاحب تو میں پکڑا گیا نہیں تو ہزار پار کر لیتا، آپ لوگوں نے 719 پر ہی روک دیا (اب ہمارے ٹھگ اپنے اعترافات میں کہیں گے جج صاحب آپ نے ہی عین روک دیا ورنہ ہم تو کھربوں کے بعد پدموں پر پہنچ جاتے بس کئی سو کھرب ہی لوٹ سکے) ٹیلر نے اپنی کتاب میں لکھا کہ یہ ٹھگ ہندوستان میں اودھ سے لے کر دکن تک پھیلے ہوئے تھے۔ انہیں پکڑنا بہت مشکل تھا، کیونکہ وہ بہت خفیہ طریقے سے کام کرتے تھے انہیں عام لوگوں سے الگ کرنے کا کوئی طریقہ ہی سمجھ نہیں آتا تھا۔ وہ اپنا کام منصوبہ بندی اور بے حد چالاکی سے کرتے تھے تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ (اب ہمارے ٹھگ اپنے اعترافات میں لکھتے ہیں کہ وہ لوگ اپنا کام انتہائی اعلیٰ دماغوں کے ذریعے کرتے تھے جو انہیں قومی دولت لوٹنے کے جدید ترین طریقے بتاتے تھے۔ وہ انہیں بتاتے تھے کہ اربوں ڈالر کے منصوبے بنا کر کس طرح اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے ان کی کک بیک پہ حصہ داری کا رقم لے کر بیرون ملک بھجوائی جاتی ہے اور پھر وہاں سے کچھ حصہ واپس ملک میں لا کر اور زرمبادلہ ظاہر کرکے باقی رقم ہڑپ کی جائے۔ وہ یہ بھی بتاتے تھے کہ ملک میں میٹرو ٹرینیں، ریپیڈ بس سروسز، ہائی ویز بنا کر کس طرح اربوں ڈالر لوٹے جا سکتے ہیں اور یہ کام اس قدر چالاکی سے کیا جاتا تھا کہ غریب غرباءکو ہوا بھی نہیں لگتی تھی)۔ اب چلئے پرانی داستان کی طرف۔
انگریزوں کے دور میں ٹھگی کا یہ عالم تھا کہ انہیں ان سے نمٹنے کے لئے ایک الگ سے محکمہ بنانا پڑا تھا۔ وہی محکمہ بعد میں انٹیلی جنس بیورو یا ”آئی بی“ کے نام سے جانا جاتا تھا (اب واپس اپنے ٹھگوں کی ٹھگی کی طرف آجائیں گے تو اس دور میں بھی اس ٹھگی سے نمٹنے کے لئے ایک نیا ادارہ یا محکمہ بنانا پڑا مگر انٹیلی جنس یا ”آئی بی“ سے کام نہیں نکل سکتا تھا کیونکہ اب یہ ٹھگ بہت مکار اور چالاک ہو گئے تھے اب ایک ادارہ ”نیشنل اکاﺅنٹی بیلیٹی بیورو یعنی ”NAB“ کے نام سے بنانا پڑا مگر ان ٹھگوں نے اپنی کاریگری دکھائی اور چالاک صاحبان اقتدار و صاحبان اختلاف نے مل کر مشترکہ رائے سے اس کا افسر اعلیٰ مقرر کیا تاکہ جب باری باری دونوں فریق لوگوں کو ٹھگیں تو یہ ادارہ چشم پوشی کرلے یوں سب کو ٹھگنے کا مساوری موقع ملتا رہے) اب پھر ہم چلتے ہیں مسٹر ٹیلر کی داستان کی طرف۔
کہتے ہیں کہ اودھ سے دکن تک ٹھگوں کا جال پھیلا ہوا تھا، انہیں پکڑنا بہت مشکل تھا کیونکہ وہ سب خفیہ طریقے سے کام کرتے تھے، انہیں عام لوگوں سے الگ کرنے کا کوئی طریقہ ہی سمجھ میں نہیں آتا تھا، وہ اپنا کام منصوبہ بندی اور بے حد چالاکی سے کرتے تھے تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ (اب پھر اپنے دور میں آئیے، ہمارے معززین ٹھگ حضرات بھی پشاور تا کراچی پھیلے ہوئے تھے وہ اپنی کاریگری سے اپنا کام کرتے تھے کہ بڑے سے بڑا ماہر بھی اس کی بھنک نہیں پا سکتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ ایک ایسی ٹوپی پہن لیتے تھے جیسے پرانے زمانے میں ”سلمانی ٹوپی“ ہوتی تھی جسے پہن کر انسان کسی کو نظر نہیں آتا تھا، انہوں نے ٹوپی جمہوریت کے نام سے ایجاد کی تھی اور یہ اسے پہن کر عام لوگوں جنہیں عوام کہا جاتا تھا کھل مل جاتے تھے پھر پانچ سال بعد ایک ڈرامہ کرتے تھے جسے یہ ”الیکشن“ کہتے تھے اور اس کے ذریعے کروڑوں عوام کو بیوقوف بنا کر ظاہر کرتے تھے جیسے وہ بھی انہیں میں سے ایک ہیں اور پھر حکمران بن کر جو ”ٹھگی“ کرتے تھے اس کے زمانے پرانے زمانے یعنی ٹیلر کے ٹھگ کو محض اچکے اور اٹھائی گیر ہی دکھائی دیتے ہیں)۔ (جاری ہے)
681