عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 630

پھر بلیک میلنگ۔۔۔!

پاکستانی سیاست پر جب تک بلیک میلنگ کے سائے منڈلاتے رہیں گے اس وقت تک یہ آزادانہ طور پر کسی طرح سے بھی اپنی کارکردگی نہیں دکھا سکے گی۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال سے ان دنوں پاکستانی حکومت بالخصوص اور اس کی پارلیمنٹ بالعموم دوچار ہے جس کے مظاہر آئے روز پوری قوم کو دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ فوجی عدالتوں کے لئے کی جانے والی قانون سازی کے معاملے نے ایک بار پھر منتشر اپوزیشن کو متحد کردیا ہے۔ ایک بار پھر انہیں ضرورتوں کے خرید و فروخت کا بیوپاری بنا دیا ہے۔ جس سے اصولوں کی سیاست نے لرزنا شروع کردیا ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں سپریم کورٹ کی بے باکی اور وزیر اعظم کی ایمانداری اور اس کی جرات بھی بے معنی ہو جاتی ہے۔ اسی لئے تو کہتا ہوں کہ جب تک بلیک میلنگ کے سائے سیاست اور پارلیمنٹ کا تعاقب کرتے رہیں گے اس وقت تک ان سے کسی خیر کی توقع رکھنا دیوانے کے خواب دیکھنے کے مترادف ہوگا۔ اس طرح کے بلیک میلنگ اور مصلحت پسندانہ انداز میں کئے جانے والے سارے کے سارے کام آئینی اور قانونی لحاظ سے تو سوفیصد درست ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اب جن لوگوں کو جیلوں میں ہونا چاہئے تھا وہ ملکی عوام کی قسمتوں کے فیصلے کرنے کے لئے پارلیمنٹ پر قابض ہو گئے ہیں اب ایک بل پاس کروانے کے لئے خود حکومت کو ان لوگوں کی منت سماجت کرنا پڑ رہی ہے۔ جن سے ان کے سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے حکومت بات کرنے کو تیار نہیں تھی۔ اسی طرح کی صورتحال ہی پاکستانی سیاست میں ”یوٹرن“ کی اصطلاح بھی متعارف کروانے کا باعث بنی۔ اگر باریک بینی سے صورتحال کا مشاہدہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جس قانون سازی کے لئے ان گندے انڈوں کی مدد لی جارہی ہے وہ گند اور ناسور بھی ان کی غلط حکمرانی ہی کا نتیجہ ہے۔ جی ہاں میں تذکرہ دہشت گردی کا کررہا ہوں جس کے خاتمی کے لئے ہی فوجی عدالتوں کے قیام کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ اب اپنے ان خدمات کی قیمت یہ سیاستدان اپنے خلاف چلنے والے مقدمات میں نرمی کی صورت میں مانگ رہے ہیں اسی لئے تو کہتا ہوں کہ جب تک بلیک میلنگ کے سائے پاکستانی سیاست پر منڈلاتے رہیں گے ہر آنے والی حکومت اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرتے رہے گی جب تک ریاضی کے فارمولے کے تحت پارلیمنٹ کو نہیں چلایا جائے گا یہ مسائل پیدا ہوتے رہیں گے اس وقت پوری اپوزیشن بمعہ (خدائی خدمت گاروں میڈیا) سب کے سب یک زبان ہو کر حکومت وقت کے خلاف ڈس انفارمیشن پھیلا رہے ہیں۔ وہ الزامات لگا رہے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں، دوسرے معنوں میں وہ ملکی عوام کو ڈگڈگی بجا کر حکومت کے خلاف سڑکوں پر لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے حکومت وقت کو بلیک میل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور ان کی بلیک میلنگ بھی ملکی عوام کو صاف طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ عوام جانتی ہے کہ حکومت نے قومی خزانے پر ڈاکہ مارنے والے سیاستدانوں کا بے رحمانہ احتساب شرع کردیا ہے جس کی وجہ سے وہ سارے سیاستدان خود کو جیل جانے سے بچانے کے لئے پارلیمنٹ کو ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ انہیں اگر آج حکومت اس بات کی گارنٹی دے دیں کہ ان کے خلاف کسی طرح کی کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی تو پھر وہی فرینڈلی اپوزیشن کا سلسلہ شروع ہو جائے گا یعنی وہ میڈیا پر حکومت کے خلاف بیان بازی کریں گے اور اندرون خانہ حکومت سے مراعات لیتے جائیں گے یہ ہی حال ملکی میڈیا کا ہے اگر حکومت آج ان پر سابقہ حکومتوں کی طرح سے اشتہارات کی بارش کردے تو یہ ہی میڈیا جس نے اب اپنی توپوں کا رُخ حکومت کی جانب موڑ دیا ہے یہ ہی میڈیا دن رات عمران خان کی حکومت کے قصیدے گانا شروع کردے گی۔ یہ سب مفادات کی جنگ ہے اور اس جنگ میں ریاست اور اس کے رہنے والے کہیں گم ہو گئے ہیں ہر کسی کو اپنی پرواہ ہے اس سازی صورتحال میں ملکی عوام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس صورتحال کا ادراک کرے کہ کون انہیں بے وقوف بنا رہا ہے؟ کون ان کے جذبات اور احساسات سے کھیل رہا ہے؟ کون اپنے مفادات پورے کرنے کے بعد انہیں ٹشو پیپر کی طرح سے استعمال کرنے کے بعد اٹھا کر پھینک دیتا ہے۔ کون؟ جب تک خود ملکی عوام میں تبدیلی نہیں آئے گی، کچھ نہیں بدلے گا یہ سیاستدان اور میڈیا اسی طرح سے انہیں ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگا کر دوڑاتا رہے گا۔
ملکی عوام کی فہم اور ان کا ادراک ہی قومی خزانے لوٹنے والوں کے لئے پارلیمنٹ کو ”نو گو ایریا“ بنانے کا سبب بنے گا اور ملکی عوام کا بائیکاٹ ہی میڈیا کو سیدھی راہ پر لانے کا باعث بنے گا ورنہ میڈیا گمراہ کن خبروں کے ذریعے ملکی عوام کو اسی طرح سے بے وقوف بناتا رہے گا۔ جس طرح سے وہ پچھلے 71 برسوں سے بناتا آرہا ہے۔ اس لئے ملکی عوام کو خود کو بدلنا ہوگا۔ ان کے بدلنے کے بعد ہی یہ کھیل ختم ہوگا۔ جو 71 برسوں سے کھیلا جارہا ہے۔ ملکی عوام کے بدلاﺅ میں ہی ایک نیا اور خودمختار پاکستان مضمر ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی یہ حکومت نئے پاکستان کے لئے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہورہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں