بدقسمتی کی انتہا دیکھئیے کہ جب سے عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوا ہے اسی دن سے تمام اپوزیشن کی جماعتوں نے اس حکومت کا چلنا دوبھر کیا ہوا ہے۔ وجہ تنازعہ عمران خان کا کرپشن کے خلاف واضح اور دو ٹوک Stand ہے جس کی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے اس کو ووٹ دیئے اور اعتماد کا اظہار کیا۔ اس سے پہلے گزشتہ تیس سالوں میں نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور پھر پرویز مشرف برسر اقتدار رہے ہیں۔ ان ادوار کا اگر جائزہ لیا جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے بالخصوص مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں نے پاکستان کے اداروں سمیت قوم کا اخلاق بھی تباہ کردیا۔ انہوں نے کرپشن کی تعریف اس انداز میں کی کہ لوگوں کو وہ بری نہیں لگتی تھی۔ اپنی حکومت کو وطل دینے کے لئے کرپشن کو عام کیا گیا۔ حکومتوں نے آنکھیں بند رکھیں اور ہر کسی کو موقع فراہم کیا کہ وہ جہاں سے چاہے کرپشن کرلے ماسوائے ان چند لوگوں کے جن کو موقع نہیں ملا یا وہ اچھی پوسٹوں پر تعینات نہیں تھے۔ اسی طرح کاروباری حضرات کو بھی کھلی چھوٹ تھی کہ وہ جس طرح چاہیں اپنی مصنوعات فروخت کریں جب کہ ملک میں عدلیہ سمیت احتساب کے تمام ادارے بھی موجود تھے لیکن ان کی بصارت چھین لی گئی تھی اور کانوں میں کرپشن کا سیسہ بھر دیا گیا تھا۔
غرض یہ کہ پاکستان ایک Banana Republic بن چکا تھا۔ کرپشن کی بڑی کہانیاں منظر عام پر آئیں اور بالخصوص مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے ایک دوسرے کے خلاف بیش بہا الزامات لگائے اور مقدمات بھی قائم کئے لیکن یہ سب مک مکا کی سیاست تھی انہوں نے باریاں لگا رکھی تھیں۔ کسی تیسری سیاسی جماعت کو گھسنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ جب کہ عمران خان نے پچھلے بیس سال سے زائد عرصہ میں ان دونوں پارٹیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر رکھا تھا کہ یہ کرپٹ لوگ ہیں اور ان کی کرپشن کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں بے نقاب کیا۔ عمران خان کے اس نعرے نے عوام الناس کو بے حد متاثر کیا اور وہ جوق در جوق پی ٹی آئی کے جھنڈے تلے جمع ہونا شروع ہو گئے۔ عمران خان چونکہ کرکٹ کی تاریخ کا واحد کھلاڑی اور کپتان تھا جس نے پاکستان کو ورلڈ کپ جتوایا اس وجہ سے وہ پاکستانی عوام کا ہیرو تھا اور پھر اس کی دیانتداری اور سخت محنت کے چرچے ہر سو تھے۔ اسٹیبلشمنٹ سمیت عوام اس پر یقین اور اعتماد کرتے تھے کہ اور پاکستان کو اس جیسا لیڈر چاہئے جو پاکستان کو دنیا میں اعلیٰ مقام دلواسکے اور کرپشن کا خاتمہ کرے۔ عوام نے عمران خان سے بے تحاشہ امیدیں باندھ رکھی ہیں اور وہ اپنے اس وعدے پر کھڑا ہے۔ اس کے دور حکومت میں اداروں کو آزاد کیا گیا جس کے نتیجے میں نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن نے کرپٹ افراد پر مختلف کیسز قائم کئے، ان کو جیلوں میں ڈالا۔ ان پر عرصہ حیات تنگ کیا مگر عمران خان کی انھک کوششوں کے باوجود بھی کرپٹ عناصر کو وہ قرار واقعی سزائیں نہیں دی جا سکیں جن کے وہ حق دار تھے۔
اسی نقطہ پر عمران خان کے خلاف گیارہ جماعتوں نے مل کر اتحاد قائم کر لیا جس کا نام ”پی ڈی ایم“ یعنی ”پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ“ رکھا گیا۔ جسے کچھ لوگ پاکستان ڈکیٹ موومنٹ بھی کہتے ہںی۔ ستمبر 2020ءمیں بننے والے اس اتحاد میں شامل تمام جماعتوں نے بے شمار جلسے، جلوس اور ریلیاں نکالیں۔ آئے دن حکومت کو گرانے کی ڈیڈ لائنز دیں۔ فوج کو نام لے لے کر ہدف تنقید بنایا گیا۔ اس میں فضل الرحمن، نواز شریف اور آصف زرداری نے مرکزی کردار ادا کیا۔ بلاول بھٹو اور مریم نواز تو محض کٹھ پتلی تھے۔ یہ ایک غیر فطری اتحاد تھا جو کہ اپوزیشن کی ان جماعتوں نے قائم کیا تھا جن کا آپس میں ازلی بیر تھا۔ نہ یہ کامیاب ہونا تھا اور نہ ہوا۔ اس میں اگر کسی نے کچھ حاصل کیا تو وہ پیپلزپارٹی ہے، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف نے اپنی رہی سہی ساکھ بھی کھو دی۔ مریم کے بڑے رعونت بھرے دعوے خاک ہو گئے۔ مولانا فضل الرحمان بیمار ہو کر صاحب فراش ہوئے۔ اے این پی اورپیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کو خیرآباد کہہ دیا۔ ایک دوسرے پر پھر وہی لفظی گولہ باری جاری ہے۔ بغض بھری پریس کانفرنسز ہو رہی ہیں۔ بلاول نے آج باقاعدہ پی ڈی ایم سے نکلنے کا اعلان کرکے کشتی میں سوراخ کردیا ہے اب پی ڈی ایم کی کشتی سمندر میں آہستہ آہستہ ڈوب رہی ہے۔ قدرت نے عمران خان کو سرخرو کیا اور اپوزیشن اپنی موت آپ مر گئی۔ یہی ان کا انجام ہونا تھا۔ اللہ بڑا بے نیاز ہے۔
325