آج کل قومی پرچم بردار ہوائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز کو لے کر بہت سی افواہیں اور قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں، جن میں سب سے زیادہ تقویت قومی فضائی ائیر لائن کی نج کاری سرِ فہرست ہے۔
ان خبروں نے گزشتہ دہ تین ماہ میں تیزی سے جڑ پکڑی ہے اور باقائدہ ایک منظم انداز سے یہ منفی پراپیگنڈہ پھیلایا گیا اور بالکل ماضی کی کی ففتھ جنریشن وارفئیر کی طرز پرعوامی ذہن سازی کرکے نج کاری کا سماں پیدا کیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ ایک حد سے زیادہ پالولر حکومت یا انتہائی غیر مقبول سرکار سے ہی کچھ ایسے ناپسندیدہ فیصلے کروائے جاتے ہیں جو کہ ایک عام سیاسی جماعت اور اس کی قیادت نہیں کر سکتی۔
موجودہ انوار الحق کاکڑ کی عارضی و نگراں حکومت لگتا ہے اسے اب یہ ذمہ داری اٹھانا ہوگی۔ لیکن یہاں پر انتہائی ضروری بات یہ ہے کہ اس بار یہ فیصلہ کرنے کے لئے ہوابازی کے ماہرین ،اس شعبے سے وابستہ منصوبہ سازوں اور خود ادارے کے اپنے تجربہ کارافسروں کی رائے اور تجاویز کو بھی شامل کیا جائے۔
کشتی کا پاسباں فقط ناخدا نہیں
کشتی میں بیٹھنے کا سلیقہ بھی چاہیے
پاکستان کے قومی ادارے بدقسمتی سے اپنی زبوں حالی تک پہنچنے کی وجوہات یا ان کے ذمہ داروں کی نشاندہی تک نہیں کر سکتے، المیہ یہ ہے کہ روائیتی غیر مستحکم سیاسی نظام نے ملکی معیشیت کو جہاں نقصان پہنچایا وہیں بڑے قومی اداروں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
یہاں تیزی سے بدلتی ہوئی سرکاروں، نظریوں ڈاکٹرائن اور اس سے کہیں زیادہ تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے خزانہ کے قلمدانوں کی اپنی اپنی انوکھی سوچ نے دیگر اداروں کی طرح پی آئی اے کو بھی تباہ وبرباد کرنے میں اپنا بھرپور ادا کیا ہے۔
بدقسمتی سے ہر آنے والی حکومت اپنی من پسندسیاسی، انتقامی، یا مالی ترجیحات لے کر آتی ہے اور کارِ سرکار کے اہم اداروں کے منصوبوں کے تسلسل کو نظر اندز کرتے ہوئے اپنے نئے فلسفہ کے پرچار کو فروغ دینا شروع کر دیتی ہے۔ گزشتہ 75 سال سے جاری اس میوزیکل چئیر نے تمام اداروں کو بالاخر بستر مرگ تک پہنچا کر ہی دم لیا ہے۔
یاد رہے کہ پی آئی اے ملک کا وہ قابل ادارہ ہے جس نے ماضی میں دوسرے ممالک کی فضائیہ کو نہ صرف تربیت فراہم کی بلکہ انہیں کامیابی سے چلا کر دکھایا تھا۔ پی آئی اے نے واقعی دنیا بھر میں بہترین باکمال سروس سے اپنا مقام بنایا تھا، اور آج بھی اگر اس کے اصل مالک یعنی عوامی نمائندوں پر مبنی سرکار اس کے ساتھ سوتیلا سلوک بند کرکے اپنائیت سے توجہ دینا شروع کر دے تو آج بھی اس کی تجربہ کار انتظامیہ ایک بار پھر سے اسے پاکستان کے ماتھے کا جھومر بنا سکتی ہے۔
یہاں یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا نج کاری ہی اس کے تمام مسائل کا حل ہے؟ کیا ایسی کوئی جادوئی چھڑی ہے کسی انویسٹر کے پاس کے وہ آئے اور بغیر کسی اضافی آکسیجن کے اس کی اکھڑی ہوئی سانسوں میں جان ڈال دے؟ شاید یہ ممکن بھی ہو لیکن جو بھی معجزہ پرائیویٹ مالکان آکر کریں گے وہی کام حکومتِ پاکستان کیوں نہیں کر لیتی، ہم کیوں اپنی سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو پلیٹ میں رکھ کر کسی غیر کے ہاتھوں میذن منفعت کے لئے پیش کر رہے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ سالہا سال سے بڑھتے ہوئے انتظامی اخراجات، آپریشن میں بے جا سیاسی مداخلت اور کارکنان کی یونین بازی نے بھی پی آئی اے کو ایک سفید ہاتھی بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن حقیقت میں تو شاید اس سے کہیں زیادہ نقصان کا ذمہ دار کرونا وائرس اور اس کے اثرات، عالمی افراط زر، ڈالر کی اڑان ، پیٹرولیم مصنوعات کی ہوشربا قیمتوں کو بھی ٹہرایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں ہوا بازی کے شعبے میں سرکارکی جانب سے عائد سخت ترین ریگولیٹری مجبوریاں بھی اس کی ذمہ دار بتاءجاتی ہیں۔ یہاں پر پی ایس او کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جس نے پی آئی اے کے طیاروں کر ایندھن فراہم کرنا ہوتا ہے اور حکومت ان کو برقت ادائیگی کرنے سے بوجوہ اکثر قاصر رہتی ہے جس کا نقصان ائیرلائن کی ساکھ کو بھگتنا پڑتا ہے۔
پی آئی اے کے جنرل مینیجر کارپوریٹ کمیونیکیشن اور سرکاری ترجمان عبداللہ ایچ خان نے ٹورونٹو میں ایک ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پی آئی اے کی بہتری کی خاطر مختلف اسٹڈیز تیار کی گئیں اور انہیں حکومتِ وقت کو منظوری کے لئے پیش بھی کیا گیا جنہیں پہلے تو قبول کر لیا جاتا اور پھر بعد مسترد، کبھی منظور کرنے کے بعد نئی آنے والی سرآکر رد کردیتی اور کہانی پھر نئے سرے سے شروع ہوجاتی۔ اسی طرح یہ میوزیکل چئیر کا کھیل چلتے چلتے پی آئی اےکی روز افزوں بگڑتی ہوئی حالت کو آئی سی یو وارڈ تک لے آیا۔
عبداللہ ایچ خان جو کہ ایک طویل عرصہ سے پی آئی اے سے وابستہ ہیں اور اس کی بہتری کے سلسلے میں مرتب ہونے والی متعدد اسٹڈیز میں براہ راست شامل رہے ہیں کا کہنا تھا کہ ہر دور میں حکومتوں کو مکمل منصوبہ بنا کر دیا گیا لیکن یا تو اس پر عمل درامد میں تاخیر سے کام لیا گیا یا پھر ایک اور نئی حکومت نے آکر اپنی مرضی کی نئی رپورٹس تیارکرنے کا حکم دیا جس میں مہینوں درکار ہوتے ہیں اور یوں معاملات پیچھے کی جانب ریورس ہوتے چلے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ چاہے حکومت کی جانب سے پی آئی اے کی اونر شپ لے کر اس کو فوری طور پر معاشی پیکج دے کر بچایا لیا جائے یا بھلے اس کی نج کاری کر دی جائےلیکن جو بھی فیصلہ لیا جائے اس میں تاخیر نہ کی جائے۔ہر گزرتے سال پی آئی اے کی حالت تو منیر نیازی کے شعر کے مصداق ہے کہ۔۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
قارئین ادھر اب فیصلہ چاہے کچھ بھی ہو لیکن دنیا بھر کے لاکھوں مسافر تذبذب کا شکار ہیں اور پریشان ہیں کہ ان کی اپنی قومی ائیر لائن کا مستبقل کیا ہے؟ کیوں اسے اونے پونے بیچنے کی باتیں ہو رہی ہیں؟ کیا بیرون ملک پاکستانیوں کو دنیا بھر میں ہزیمت کا سامنا اٹھانا پڑے گا؟ کیا یہ بات پھر درست ثابت ہونے جا رہی ہے کہ ہم نے تاریخ سے ایک ہی سبق سیکھا ہے کہ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔
تاہم اسلام آباد کے بڑوں کی جانب سے ملنے والی سن گن سے اس خبر کی تصدیق ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہ نومبر دسمبر تک نج کاری کا فیصلہ کر نے کا امکان ہے اور پھر چھہ ماہ کے اندر بتدریج اس کا مکمل آپریشن پرائیویٹ مالکان کے حوالے کر دیا جائے گا۔
دوستو! اگر بڑوں نے نج کاری کاطے کر ہی لیا ہے تع اب یہ تارکین وطن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرکار کے فیصلوں پر اعتماد رکھتے ہوئے پی آئی اے سے سفر کو جاری رکھیں ، امید ہے کہ بہتری کی کوئی نہ کوئی صورتحال نکل آئے گی اور دنیا بھر کے ائیرپورٹس پر سبز ہلالی پرچم والے طیارے اپنی اڑان بھرتے اور لینڈنگ کرتے اپنی روائیتی پہچان برقرار رکھتے رہیں گے۔ پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ، یہ ٹائی ٹینک ابھی اتنی آسانی سے ڈوبنے نہیں دیا جائےگا۔ہماری تو بس شاعر سے معذرت کے ساتھاب یہی دعا ہے کہ۔
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پہ اترے
وہ ”ائیر لائن“ جسے اندیش زوال نہ ہو
268