بالاخر قومی اسمبلی کے اسپیکر نے پی ٹی آئی کے 35 فیصد استعفیٰ منظور کرلئے یعنی عمران خان کی حکمت عملی کامیاب ہو ہی گئی۔ اس کو کہتے ہیں پڑھا لکھا سیاستدان۔ اب عمران خان کی اس موثر ترین حکمت عملی کو میں اس کہانی یا واقعہ کے ذریعے قارئین آپ لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ایک شخص صحرا سے گزر رہا تھا، اسے پیاس بھی لگی اور بھوک بھی، دور دور تک نہ تو پانی کا کوئی اتا پتا تھا اور نہ ہی خوراک کا۔۔۔ راستے میں اسے ایک ناریل کا درخت نظر آیا تو اسے امید بر آئی کہ اس کی خدا نے سن لی، وہ ناریل توڑ کر کھانا ہی چاہتا تھا لیکن ناریل کا درخت چونکہ بہت ہی لمبا ہوتا ہے اور اس پر سیڑھی لگائے بغیر چڑھنا ممکن نہیں ہوتا، اس وجہ سے وہ دوبارہ اپنی بے بسی پر افسوس کرنے لگا مگر اسی اثنا میں اسے ناریل کے درخت پر ایک بندر بیٹھا ہوا نظر آیا جسے دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک لوٹ آئی اور اس کے بعد اس نے اپنی عقل کو دوڑاتے ہوئے کہیں سے پتھر تلاش کئے اور اس نے بندر کو مارنا شروع کردیا۔ بندر خود کو ان پتھروں سے بچانے کے لئے اور اوپر درخت کے چل پڑا مگر وہ شخص بدستور اسے پتھر مارتا ہی رہا، اسے یقین تھا کہ بندر ضرور اس کا ردعمل دے گا یعنی وہ پتھر کے بدلے درخت سے ناریل توڑ کر پتھر مارنے والے کو مارے گا۔ بالکل وہی ہوا، بندر نے بھی جوابی کارروائی میں بہت سے ناریل توڑ کر پتھر برسانے والے پر مارے۔۔۔
اس طرح سے اس عقلمند بھوکے اور پیاسے کی بھوک اور پیاس اس کے دانشمندی اور بہترین حکمت عملی کی وجہ سے دُور ہو گئی۔ عمران خان نے بھی بالکل یہ ہی حکمت عملی اختیار کی۔ تحریک عدم اعتماد کا شوشہ چھوڑا اور اس کے بعد اسمبلی میں واپسی کا عندیہ دیا، یہ وہ اس طرح کے راکٹ تھے جو سیدھے نشانے پر لگے اور پچھلے 8 ماہ سے تعطل کے شکار استعفیٰ ایک ہی جھٹکے میں بلا کسی ایم این کو بلائے اور ان کے ہاتھ سے لکھے استعفیٰ منگوائے بغیر ہی اسپیکر قومی اسمبلی نے منظور کر لئے۔ اس طرح سے لگا کہ اسپیکر کا ریمورٹ عمران خان کے ہاتھ میں آگیا۔ عمران خان یہ ہی تو چاہتا تھا کہ ان کے استعفیٰ منظور کر لئے جائیں تاکہ معاملہ جنرل الیکشن کی طرف جائے۔ پنجاب اور کے پی کے اسمبلی تحلیل کردی گئی ہے اور قومی اسمبلی کے آدھے سے زیادہ اراکین مستعفی ہو چکے ہیں۔ پی ڈی ایم بہت ہی بُری طرح سے عمران خان کے ہاتھوں اپنے سہولت کاروں سمیت ٹریپ ہو چکی ہے۔ ان کے آگے کنواں اور پیچھے کھائی والی ہو گئی ہے۔ آگے جاتے ہیں تو بھی موت ہے اور پیچھے آتے ہیں تو بھی موت ہے یعنی الیکشن میں جاتے ہیں تب بھی خاتمہ ہے اور اگر اسمبلی میں پی ٹی آئی کو بلواتے ہیں تو تب بھی موت ہے۔ اس کو کہتے ہیں سیاست۔۔۔ اس کو کہتے ہیں بہترین حکمت عملی۔۔۔ کہاں گئے وہ مفاہمتوں کے شہنشاہ، کہاں گئے وہ سب پہ بھاری ہونے کے دعویدار۔۔۔؟ ہر شے نہیں بکتی۔۔۔ اور نہ ہی ہر کوئی بکاﺅ مال ہوتا ہے۔ عمران خان نے اپنے 22 سالہ سیاسی جدوجہد میں یہ ہی سب کچھ پاکستانیوں کو سکھایا ہے۔ صحیح معنوں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ اس فلسفے کو عملی طور پر پاکستانی عوام کے شعور کو بیدار کرکے عمران خان نے ثابت کروایا اور خوف کے اس بت کو پاش پاش کردیا جو قانون کی حکمرانی کی راہ کی سب سے بڑی دیوار تھا۔
آج پاکستان بدل چکا ہے، پاکستانی عوام آگے اور ان کے پنڈت نما سیاستدان پیچھے رہ گئے ہیں، سیاستدانوں کی ساری اصلیت قوم کے سامنے آگئی ہے کہ قوم اور ملک کے دشمن کوئی اور نہیں ان کے اپنے ہی سیاستدان ہیں۔ جنہیں وہ مسیحا سمجھ کر ساری زندگی ان کے گُن گاتے رہے، وہی ان کی نسلوں کو برباد اور قرضوں کے بوجھ تلے دبانے والے ہیں۔ آج جو پاکستانی قوم 75 سالہ خواب غفلت سے بیدار ہو چکی ہے اس کا سہرہ عمران خان کے سر جاتا ہے۔ پاکستان کی بقاءاور اس کی سلامتی کے لئے اسی طرح سے قوم کا بیدار ہونا اور قانون کی بالادستی کے لئے جدوجہد ضروری ہے۔ اسی میں عوام اور پاکستان کی خودمختاری مضمر ہے۔
