پی ڈی ایم کے ہونے والے گزشتہ دنوں دونوں جلسے گجرانوالہ اور کراچی بری طرح ناکام ہوئے بلکہ دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا باعث بنے۔ ان جلسوں کی کوریج پاکستانی میڈیا سے زیادہ ہندوستانی میڈیا نے کی کیونکہ یہ سارا ایجنڈا بھارت کو خوش کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ ان جلسوں میں پر اٹھنے والے کروڑوں روپے کے اخراجات بھی بیرونی ذرائع سے حاصل کئے جارہے ہیں۔ پاکستان دشمن قوتوں کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس اتحاد کے ذریعے موجودہ حکومت اور نظام کو کمزور کریں اور ملک خداداد کا شیرازہ بکھیر دیں۔ اس میں پی ڈی ایم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
گجرانوالہ جلسہ میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے نو آموز رہنماﺅں مریم صفدر اور بلال زرداری کو خاصی خفت اٹھانی پڑی جب مولانا فضل الرحمان نے ان کو اسٹیج پر گھنٹوں انتظار کروایا۔ اور اس دوران تنگ آکر لوگ اسٹیڈیم سے جانا شروع ہو گئے۔ اس جلسے نے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو بہت رسوا کیا۔ مریم صفدر کی تقریر ختم ہوتے ہی ن لیگ کے کرائے پر لائے ہوئے لوگ جلسہ گام سے چلے گئے اور رہی سہی کسر بلاول کی تقریر کے بعد نکل گئی۔ جب فضل الرحمان تقریر کے لئے آئے تو جلسہ گاہ تقریباً خالی ہو چکا تھا۔ انہوں نے خالی کرسیوں سے خطاب کیا۔ گجرانوالہ کا جلسہ تمام گیارہ جماعتوں پر عوام کا اظہار عدم اعتماد تھا۔ اس جلسے کی بدقسمتی نواز شریف کی پاکستان کے اداروں کے خلاف سخت زبان کا استعمال تھی۔ جس کا ہر طبقہ فکر میں احتجاج ہوا۔ عام لوگوں سے لے کر دانشوروں تک سب نے نواز شریف کے بیانیے کو سخت ملک دشمن قرار دیا۔ شریف کے اس بیانیے سے ن لیگ کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی میں سخت تشویش پیدا ہو چکی ہے اور بہت سارے ایسے ممبران اسمبلی جو اپنے حلقوں میں ذاتی حیثیت میں بڑے پاور فل سمجھے جاتے ہیں انہوں نے فی الحال درپردہ علم بغاوت بلند کردیا ہے۔ آئندہ آنے والے چند دنوں میں وہ کھل کر نواز شریف مخالف صفوں میں شامل ہو جائیں گے۔ نواز شریف کی گزشتہ دنوں کی تقاریر نے الطاف حسین کی یاد تازہ کردی ہے۔ الطاف حسین نے تو اس طرح کی زبان لندن جا کر بہت عرصے بعد استعمال کی تھی مگر نواز شریف نے چند ماہ کے بعد ہیزہر اگلنا شروع کردیا ہے۔ نواز شریف لندن بیٹھ کر سعودی عرب کی مدد سے امریکہ تک رسائی حاصل کررہا ہے کہ وہ کسی طریقے سے اسے پاکستانی سیاست میں دوبارہ داخل کروائیں اور وہ ان کی ڈکٹیشن کے مطابق کام کرے گا جو کہ وہ پہلے بھی کرتا تھا۔
لیکن جس طرح کی بے ہودہ تقاریر فوج کے خلاف کی گئی ہیں اس سے نواز شریف نے مفاہمت کے تمام دروازے بند کرلئے ہیں بلکہ اپنی پارٹی کے لئے بہت بڑے مسائل کھڑے کر دیئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کو بطور سیاسی پارٹی کالعدم قرار دیئے جانے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں کیوں کہ آئین پاکستان کے مطابق اداروں کے خلاف ایسی تقاریر کرنا جرم ہے اور اس کی بڑی انتہائی سزا ہے۔ نواز شریف کی سوچ ہے کہ میں تو تاحیات نا اہل ہو چکا ہوں اس لئے میں پورے نظام کو تلپٹ کرکے رہوں گا۔
نواز شریف کا یہ بیہودہ موقف فوج سے کورا جواب ملنے کے بعد سامنے آیا ہے وہ مریم صفدر کے لندن جانے کا انتظار کررہے تھے کہ وہ بھی چوروں اور مفروروں کے گروپ میں شامل ہو جائے اس کے لئے شریف نے ایک سال چپ سادھے رکھی اور خفیہ طور پر فوج سے مل کر پتلی گلی سے نکل جانے کا پروگرام بناتے رہے۔ مگر موجودہ حکومت کی اس پر بڑی گہری نظر تھی۔
عمران خان نے اس پر بڑا واضح اور سخت موقف اختیار کیا کہ ہماری حکومت کسی صورت مجرمہ مریم صفدر کو لندن جانے نہیں دے گی۔ جس پر وہ قائم ہیں۔ عمران خان نے بڑا دلیرانہ موقف اختیار کیا ہے کہ اور حالیہ تقریر میں واضح کردیا ہے کہ اب آپ بدلہ ہوا عمران خان دیکھیں گے۔ عمران خان کا پہلے دن کا موقف آج تک نہیں بدلہ ہے وہ مصمم ارادے کے ساتھ اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔
مزید برآں پرائم منسٹر نے اپنے خطاب میں چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیئرمین نیب کو بھی دستہ بستہ درخواست کی کہ خدارا سالوں سے پڑے ہوئے کرپشن کے کیسز کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ عوام اب تنگ آچکے ہیں اور اس سے عدلیہ کا جو رہا سہا وقار ہے وہ بھی مجروح ہو رہا ہے۔ دیکھیں اب یہ دونوں ادارے اس کا کیا اثر لیتے ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستانیوں کی نظریں عدلیہ اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ شریف اور زرداری فیملی کے خلاف درجنوں کیسوں کا فیصلہ کب ہو گا؟ مریم صفدر کی ضمانت کب ختم ہو گی؟ وہ سزایافتہ ہونے کے باوجود نا صرف آزاد گھوم رہی ہے بلکہ فوج اور حکومت کے خلاف اپنی حیثیت سے بڑھ کر باتیں کررہی ہے، لوگ حیران ہیں کہ ادارے اس کو اس جیسے دوسرے لوگوں کو کس طرح کھلے چھوڑے ہوئے ہیں۔ان کے خلاف فوری اور سخت ایکشن ہونا چاہئے۔
دوسری طرف مزار قائد پر کیپٹن (ر) صفدر اعوان، مریم صفدر، شاہد خاقان عباسی، مریم اورنگزیب، نہال ہاشمی اور دوسرے لیگی رہنماﺅں اور کارکنوں نے جس طرح ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے ہیں اس سے ملک گیر احتجاج اور میڈیا پر ان کے خلاف سخت تنقید کی جارہی ہے، حکومت کو فوری طور پر ان ملزمان کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دینی چاہئے جنہوں نے پاکستان کو مذاق بنا کے رکھ دیا ہے۔ امید ہے کہ یہ کالم چھپنے تک ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں آچکی ہوگی۔
