بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 219

چور مچائے شور

موجودہ حکومت کا بیانہ اب فیل ہوتا دکھائے دے رہا ہے۔ جن بلند و بانگ دعوﺅں اور وعدوں پر حکومت نے سابقہ حکومتوں کو اپنی شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور جس دلدل میں سابقہ حکمرانوں کو دھکیلا تھا۔ خود بھی اسی صورتحال کا سامنا کرتی نظر آرہی ہے۔ عام لوگوں کے خیال میں سابقہ حکمرانوں پر بنائے گئے جھوٹے مقدمات کی قلعی کھل گئی ہے اور اب عمران خان کی سابقہ حکومتوں پر کی گئی تنقید بے اثر ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ ”چور مچائے شور“ کے مصداق عمران خان بھی سابقہ حکمرانوں سے کچھ مختلف نہیں بلکہ عوام کا یہ بھی کہنا ہے کہ سابقہ حکمرانوں نے نہ تو
بلند و بانگ دعویٰ کئے تھے اور نہ ہی عوام کو ریاست مدینہ جیسے مقدس نام کے ذریعہ مذہبی کارڈ کھیل کر بے وقوف بنایا تھا جب کہ عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کے دور میں جس قدر نا انصافی دیکھنے میں آئی۔ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وزیر اعظم جنہوں نے کراچی کی سیٹ پر کامیابی حاصل کی اور وزیر اعظم بنے۔ کراچی کے عوام کو کچھ نہ دے سکے۔ بجز یہ کہ نواز شریف دور میں ٹرانسپورٹ کے جو پروجیکٹس شروع کئے گئے تھے انہیں بھی مکمل نہ کرسکے۔ وہ صنعتیں جو گزشتہ دور
میں چل رہی تھیں اور ملک میں زرمبادلہ آرہا تھا حکومت کی کچھ غلط پالیسیوں کے سبب بند ہو گئیں۔ آئی ایم ایف جس سے بات کرنا گناہ عظیم سمجھا گیا تھا۔ ان کے قدموں میں بیٹھنے کے بجائے حکومت لیٹ چکی ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اخلاقیات نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ گالم گلوچ کا بازار گرم ہے خصوصاً چھ ماہ میں جس انداز میں معاملات بگڑنے شروع ہوئے ہیں اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے خلاف ہونے والی سازشوں کو حکومت اور اس کے حواریوں نے خود ہی کامیابی کے مواقع فراہم کردیئے ہیں اور یوں ملک کے تمام ادارے غیر یقینی کی صورتحال کا شکار ہو چکے ہیں اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت کی رٹ مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور چند ہی ہفتوں میں کوئی نیا سیٹ اپ موجودہ سیٹ اپ کو اپ سیٹ کرسکتا ہے۔ واللہ عالم بالصواب

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں