عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 120

کارنامہ یا ایک نئی جنگ کی شروعات

اُلفت کی نئی منزل کو چلا کے مصداق مملکت خداداد پاکستان جنگ کی ایک نئی ڈگر پر چل رہا ہے۔ خدا خیر کرے، یہ پاکستان میں روزانہ کی بناءپر کیا نت نئے ایڈونچر رونما ہو رہے ہیں، افغانستان کے اندر گھس کر فضائی حملہ کرنا اور متعدد لوگوں کی ہلاکت۔۔۔ یہ ایک بہت بڑا ایڈونچر ہے، ابھی تک اس حملہ سے متعلق کوئی مکمل اطلاع کسی بھی جانب سے موصول نہیں ہو سکی ہے۔ بلوچستان کے سابق نگران وزیر اطلاعات مسٹر اچکزئی نے اسے سانحہ میران شاہ کا ردعمل قرار دیا ہے جس میں پاکستان آرمی کے افسران اور جوان شہید ہوئے تھے۔ دہشت گردی کے واقعات پہلے بھی خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے علاقے میں رونما ہوا کرتے تھے مگر کبھی بھی اس کا ردعمل اس طرح سے نہیں دیا گیا جس طرح کا اب کے بار یاد گیا ہے۔ اس لئے ساری دنیا کے میڈیا کی نظریں اس واقعہ پر مرکوز ہو گئی ہیں اور ہر کوئی صرف یہ معلوم کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ یہ حملہ کرنا پاکستان کا اپنا انفرادی فیصلہ ہے یا کسی اور کا تھوپا ہوا ہے اور ایک بار پھر ماضی کی طرح سے پاکستان نے کسی اور کی جنگ کی شروعات اپنے طور پر کرلی ہے اور اس حملے کے اصل وجوبات اور محرکات کیا ہیں۔۔۔؟ اور اس کا جوبائیڈن انتظامیہ سے براہ راست یا پھر بالواسطہ کوئی تعلق بنتا ہے کہ نہیں؟۔۔۔ اور خود بھارت کا اس سارے معاملے سے کیا لینا دین اہے۔۔۔؟
کیا حسب روایت بھارت کی ایجنسی ”را“ تو طالبان کے پشت پر نہیں کھڑی ہے اور وہی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے اس طرح کسی دہشت گردی کی وارداتیں پاکستان میں کروارہی ہے جس کا اس موقع پر اسی انداز سے جواب دینا ضروری تھا۔
میرانشاہ کے اس افسوسناک سانحہ پر بھرپور ردعمل پاکستان کی جانب سے دیا گیا اور ایک اور خطرناک معنی خیز میسیج ایک تصویر کے ذریعے بھید یا گیا ہے وہ تصویر کیا ہے۔۔۔؟ ایک دھماکہ تھا، ایک شہید کے جنازے کو ایک طرف آرمی چیف اور دوسری جانب صدر مملکت آصف زرداری کاندھا دے رہے تھے۔۔۔؟ بہت ہی معنی خیز تصویر تھی جس کے بعد صدر مملکت اپنے کانپتے ہوئی آواز میں جس طرح کی اسپیچ تھی اس میں انہوں نے ایک طرح سے حملہ آوروں کو وارننگ دی تھی اور اس کے بعد افغانستان کے اندر گھس کر جوابی کارروائی کی گئی۔ صدر مملکت کی آواز کسی خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے کپکپا رہی تھی اور پہلی بار مجھے یہ یقین ہو گیا کہ آصف زرداری واقعی شدید بیمار ہیں اور یہ بیماری شاید انہیں زیادہ جینے کا موقع نہ دے مگر قانونی اور آئینی طور پر وہ پورے پانچ سال تک پاکستان کے صدر رہیں گے یہ ایک الگ بات ہے کہ اس موقع پر یہ کہا جا سکتا ہے
ساماں ہے سو برس کا
پل کی خبر نہیں۔۔۔
جنازے والی تصویر دیکھ کر مجھ سمیت تقریباً سبھی لوگوں کو آصف زرداری کی وہ مشہور تصویر یاد آگئی ہو گی جس میں انہوں نے ”اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی شریف برادران کو دی تھی یا پھر مولانا فضل الرحمن کو۔۔۔۔“ لیکن اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دینے والے کو اب محض اپنی صدارت کے واسطے جنازے کو کاندھا دینا پڑ رہا ہے، ممکن ہے اس تبدیل شدہ صورتحال میں قدرت کی جانب سے ان کے لئے کوئی پیغام ہو کیونکہ اب ان میں اتنی سکت نہیں کہ وہ جنازہ اٹھانے کی صورت میں کسی کا بوجھ اٹھا سکیں۔ ان کا ناتواں کاندھا تو خود ان کا اپنا بوجھ اٹھانے کے بھی اب قابل نہیں رہا۔
بہرحال تصویر بہت ہی معنی خیز تھی، تصویر میں اداکار اور پروڈیوسر دونوں اکٹھے ہوں تو فلم دیکھنے والوں کو حقیقت کا علم بخوبی ہو جاتا ہے کہ اداکار کو کردار دینے والا یا پھر اس کردار کے لئے انہیں موزوں ترین اداکاری کرنے والے کا انتخاب کرنے والا کون ہے۔۔۔؟
چیزیں پہلے ہی بہت واضح تھیں، ٹرانسپرینسی کی وجہ سے۔۔۔ مگر اس طرح کی انوکھی اور غیر معمولی تصویریں صورتحال کو بہت ہی آسانی سے کھول کر رکھ دیتی ہیں، غرض بات شہداءکی قربانیوں اور حملہ آوروں کے خلاف بھرپور جوابی کارروائی کی ہو رہی تھی۔ ایئرفورس کے اس کامیاب ترین آپریشن کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے اور اس تاریخ ساز کارنامے کے لئے آرمی چیف جناب عاصم منیر صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ ملک کی سلامتی ہر طرح کی سیاست پر مقدم ہے اور اس پر کسی بھی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ قوم اپنی بہادر فوج کی پشت پر کھڑی ہے، وہ فوج جو پاکستان کی بقاءاور اس کی سلامتی کی ضامن ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں