گزشتہ دنوں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی جس میں دو نوجوانوں کو دکھایا گیا جو کراچی کی ایک شاہراہ پر موٹر سائیکل پر سوار جارہے ہیں کہ اچانک عقب سے ایک رینجرز کی موبائل موٹر سائیکل سوار کو ٹکر مارتی ہے اور پھر چند رینجرز کے نوجوان اتر کر پیچھے سے ٹکر مارنے پر معذرت خواہانہ انداز اپنانے کے بجائے لاتوں اور گھونسوں سے نوجوان کو بے دردی سے پیٹنا شروع کر دیتے ہیں اور کئی ایک رینجرز کے باوردی اہلکار اس نوجوان کی لاتوں اور کھونسوں سے تواضع کرنے کے بعد اسے رینجرز کی گاڑی میں ڈال کر لے جاتے ہیں بالکل ایسا منظر دیکھنے میں آتا ہے کہ جیسے یہ کراچی نہ ہو بلکہ کشمیر کا کوئی شہر ہو جہاں چند کشمیری نوجوانوں کو بھارتی فوجی اپنے ظلم کا نشانہ بنا رہے ہوں۔ یہ وہ رینجرز ہے جو کراچی پر اس لئے قابض ہے کہ کراچی میں امن و امان رہے اور لوگوں کے مال و جان کی حفاظت ہو سکے مگر حقیقت یہ ہے کہ انہی رینجرز کی چوکیوں کے سامنے گاڑیوں کو روک کر موبائل چھینے جاتے ہیں مگر رینجرز خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ جہاں ان رینجرز کی فیملیز رہتی ہیں وہاں بڑے بڑے بیریئر لگے ہوئے ہیں تاکہ عام شہری ان علاقوں میں نہ گھس سکے۔
کس قدر شرم کا مقام ہے ان باوردی رینجرز کے لئے کہ خود کو محفوظ بنانے کے لئے چار دیواری میں رہتے ہیں اور دوسروں کے بچوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کراچی میں بھی بنگلہ دیش والی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہی کراچی تھا جو فوجی گاڑیوں کو دیکھ کر پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتا تھا مگر اب اپنی اس غلطیکا خمیازہ بھگت رہا ہے جو اس نے ماضی میں کی۔ اس سے قبل بھی ایک ویڈیو لوگوں کی نظروں سے گزری تھی، جس میں ایک نوجوان کو دکھایا گیا تھا اور چاروں جانب سے رینجرز بندوق تانے کھڑے تھے اور بعدازاں گولیاں مار کر اسے وہیں خون میں نہلا دیا گیا تھا۔
مگر کسی عدالت، کسی میڈیا، کسی سیاست دان نے اس پر بات تک نہ کی اور کسی کی مجال تھی کہ ان رینجرز کے اہلکاروں پر کوئی کیس بنا سکے۔
حیرت ہے کراچی کی نمائندگی کرنے والے ان چند ممبر پارلیمنٹ پر کہ جو حکومت کا حصہ ہیں مگر اتنی سکت نہیں کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا سکیں، نہ ہی کسی میڈیا ہاﺅس اور اینکر میں جرات ہے کہ وہ اس مسئلہ پر آواز اٹھائے۔ یہی کچھ ملک کے دوسرے صوبوں میں ہوا ہوتا تو لوگ دیکھتے کہ کیسے اور کیونکر یہ رینجرز کے نوجوان عوام کے لاتوں اور گھونسوں سے خود کو بچا پاتے۔ یہ رینجرز اگر لاڑکانہ یا دادو، شکارپور یا جیکب آباد میں یہ بدمعاشی کرکے دکھائیں۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ سندھ حکومت نے کراچی کی حد تک رینجرز کو خوف و ہراس پھیلانے کا ٹھیکہ دے رکھا ہے اور یہاں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ سندھ حکومت اور رینجرز ملی بھگت سے اردو بولنے والے افراد کو اپنے مظالم کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ سب کی کوشش یہی ہے کہ کراچی سے اردو بولنے والے افراد کو نیست و نابود کردیا جائے اور انہیں غلام بنا کر رکھا جائے۔
نہ جانے کب تک کراچی کے عوام اس نا انصافی کا شکار رہیں گے اور نہ جانے کب اللہ کا غضب جوش میں آئے گا اور پاکستان ان غنڈوں سے پاک ہو گا جو وردی میں ظالمانہ اور ڈاکوﺅں کا کردار ادا کررہے ہیں۔
207