عمران خان توجہ فرمائیے! 364

کرونا کی دوسری لہر زیادہ مہلک ہے؟

دسمبر 2019ءمیں چین کے شہر ووہان سے نمودار ہون والے کرونا وائرس نے پچھلے ایک سال سے دنیا بھر میں تباہی مچا رکھی ہے۔ موجودہ لہر کیا زیادہ مہلک ہے؟ اس کا جواب آئے دن ہونے والی اموات اور حکومتوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے سخت اقدامات سے صاف عیاں ہے۔ پچھلے موسم گرما کے دوران اس کا زور ٹوٹتا ہوا نظر آرہا تھا لیکن موسم سرما کے شروع ہوتے ہی اس کی دوسری لہر کا آغاز ہو چکا ہے دنیا بھر کے ماہرین سائنس کے لئے حیرانگی کی بات بنی ہوئی ہے کہ کرونا وائرس کا شکار زیادہ تر یورپین ممالک اور امریکہ ہیں۔ جب کہ اس کے مقابلے میں افریقہ، جنوبی ایشیا اور مڈل ایسٹ اتنے زیادہ متاثر نہیں ہے وہاں نہ صرف انفیکشن کی شرح کم ہے بلکہ سرح اموات بھی بہت کم ہے اس معمہ کو حل کرنے کے لئے عجیب و غریب دلائل پیش کئے جارہے ہیں، کچھ کا خیال ہے کہ ان ممالک میں لوگوں کی قوت مدافعت بہت زیادہ ہے۔ ان کا لائف اسٹائل مختلف ہے اور کھانے مختلف ہیں۔ موسم نسبتاً گرم زیادہ ہوتے ہیں جب کہ ان ممالک میں زیادہ تعداد معاشی طور پر غریب ممالک کی ہے۔ جن کے پاس کرونا سے نمٹنے کے لئے شاید اتنے وسائل بھی نہیں ہیں۔
آئیے ایک اور زاویے سے اس کا جائزہ لیتے ہیں جو کہ بعض حلقوں میں زیربحث رہتا ہے۔ اس وقت جب کہ کرونا وائرس کے خلاف مختلف کمپنیوں کی ویکسین بھی زیر استعمال ہے لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔
اب تک پوری دنیا میں بیس لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں اعداد و شمار کے مطابق غیر مسلم ممالک میں مرنے والوں کی تعداد اٹھارہ لاکھ کے قریب ہے اور مسلمان ممالک میں مرنے والوں کی تعداد تقریباً دو لاکھ کے قریب ہے۔ اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 94 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ اب تک سب سے زیادہ ہلاکتیں امریکہ، برازیل، انڈیا، میکسیکو اور یوروپ میں ہو چکی ہیں جب کہ مسلمان ممالک میں ایران، ترکی، پاکستان اور بنگلہ دیش سرفہرست ہیں۔ مڈل ایسٹ میں مرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ افریقہ میں بھی مرنے والوں کی تعداد ساﺅتھ افریقہ کے علاوہ بہت کم ہے۔ لیکن لاک ڈاﺅن کی شختیاں سب ممالک میں جاری ہیں اس سے دنیا بھر کی معیشت برباد ہو چکی ہے۔ چھوٹے ممالک تو خاک نشیں ہو چکے ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیاں دیوالیہ ہو چکی ہیں، خونی رشتے ایک دوسرے سے مصافحہ تک کرنے سے کترا رہے ہیں۔ بچوں کو پیار نہیں مل رہا، آنے والے مہمان دور سے ہی ہیلو ہائے کررہے ہیں۔ دوست احباب رشتہ دار ایک دوسرے سے ملنے سے خوف زدہ ہیں۔ غیر ضروری سفر پر پابندی کی وجہ سے والدین شادی شدہ بچوں کو ملنے سے قاصر ہیں اور بچے والدین سے ملنے سے قاصر ہیں۔ نئی شادیوں میں تاخیر درپیش ہے۔ اوپر دیئے گئے دلائل اور اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدرت شاید بے گناہ انسانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا خود ظالموں سے بدلہ لے رہی ہے کیوں کہ پچھلے بیس سالوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ جس طرح افغانستان، عراق، لیبیا، شام، پاکستان اور یمن میں بے گناہ انسانوں کا وحشیانہ قتل عام کیا گیا ہے۔ صرف شام میں پچاس ہزار بچے مارے جا چکے ہیں اس کے علاوہ ہندوستان میں نہ صرف کشمیریوں کو قتل کیا جارہا ہے بلکہ ہندوستان میں بسنے میں دوسرے مسلمانوں کو بھی چن چن کر مارا جارہا ہے۔ فلسطین میں معصوم شہری آئے دن اسرائیل فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ 9/11 کے بعد امریکہ اور نیٹو کی فوجوں نے لاکھوں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے ہیں ان کا ناجائز اور ناحق قتل عام کیا ہے جس کا کوئی ازلا نہیں ہے گو کہ مسلمان ممالک میں بعض عرب ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں لیکن ایمان اور عقل کی دولت سے پیدل ہیں۔ پاکستان جیسا واحد اسلامی ایٹمی قوت رکھنے والا ملک بھی کاسہ لے کر دربدر بھیک مانگتا نظر آتا ہے لہذا وہ کیا کسی کی حفاظت کرے گا۔
قرین قیاس یہی ہے کہ مسلمان ممالک کی کمزوری اور بزدلی روز روشن کی طرح عیاں ہے ان میں ہنود، یہود اور نصاریٰ سے ٹکر لینے کی جرات و ہمت نہیں ہے اور پھر ان کے درمیان غداروں کا پایا جانا تاریخی حقیقت ہے۔
مسلمانوں کی بے بسی اور بے توقیری کو دیکھتے ہوئے شاید قدرت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ خود غیر اسلامی قوتوں اور ظالموں کا ہاتھ روکے اور اس قسم کا نہ نظر آنے والا وائرس پھیلا دیا جائے جس کے خلاف ان کی جوہری اور فوجی قوت صفر ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت امریکہ سمیت یوروپی ممالک اس وائرس کے ہاتھوں بے بس ہو چکے ہیں، کوئی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہو پار ہی جب کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلم ممالک میں اموات کی شرح بہت کم ہے، الحمدللہ۔
ہمارے ہاں تقریباً زندگی کا پہیہ ماحول کے مطابق چل رہا ہے، کوئی شخص بھی وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا، تمام کاروبار تقریباً چل رہے ہیں، ہماری ایکسپورٹ انڈسٹری پوری Capacity پر چل رہی ہے۔ کنسٹرکشن انڈسٹری عروج پر ہے اور اس سے منسلک تمام انڈسٹریز بھی بھرپور طریقے سے چل رہی ہیں۔ آٹو موبائیل کمپنایں بڑا زبردست کام کررہی ہیں۔ یعنی پاکستان کی معاشی حالت کرونا وائرس کے بعد بہت بہتر ہو چکی ہے جب کہ دوسرے معاشی طور پر مضبوط ممالک زبوں حالی کا شکار ہیں۔ یہ سب قدرت کے فیصلے ہیں۔ انسان بے بس ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس موذی وائرس سے تمام عالم کی جان چھڑائے اور دنیا ایک بار پھر بھرپور طریقے سے مصروف عمل ہو جائے، آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں