بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 278

کورونا وائرس اور پاکستان

میں یہ کالم اسلام آباد پاکستان سے تحریر کررہا ہوں۔ گزشتہ ہفتہ خاندان کی ایک شادی کے سلسلہ میں کراچی آنا ہوا تو ہر جانب لوگوں کا جم غفیر نظر آیا۔ محسوس ہی نہیں ہوا کہ وہ کرونا جس سے پوری دنیا خوفزدہ ہے اور گھروں میں مقید ہے۔ پاکستانیوں کو رتی برابر بھی ڈرانے میں کامیاب ہوا ہے۔ جس شادی میں شرکت کے لئے آیا، وہاں میں اور میری اہلیہ جب ماسک لگائے رہے تو لوگوں کی تنقیدی نگاہیں ہمارا تعاقب کرتی نظر آئیں۔ بعض عزیز رشتہ دار یہ جملہ کہتے دکھائی دیئے کہ اگر یونہی ماسک لگائے رکھا تو کہیں دم ہی نہ گھٹ جائے مگر ہم نے کسی طنزیہ نظر یا جملہ بازی کو اہمیت نہیں دی کہ ہم جہاں سے آئے تھے وہاں SOP’s پر عمل نہ کرنا ایک جرم سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جہاں لوگوں کو ہزاروں ڈالرز کے جرمانے کا حکومتی اقدامات کے برخلاف عمل کرنے پر سامنا ہے۔
دوسری جانب حکومت پاکستان کی بے شرمی دیکھئے کہ وہ اس بات کا کریڈٹ لیتی دکھائی دے رہی ہے کہ پاکستان میں کرونا پر قابو پا لیا گیا ہے جب کہ یہ بات سراسر بے بنیاد اور جھوٹی ہے۔ دراصل پاکستان میں گندگی کے ڈھیر اور Non Hygenic چیزوں کے سبب لوگوں کی قوت مدافعت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور یوں وہ بہتر طور پر کرونا سے مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ دوسری اہم چیز یہاں کا گرم موسم اور دھوپ میں تیزی ہے اور یوں محنت مزدوری کرنے والا طبقہ سخت محنت کے سبب کئی ایک بیماریوں سے دور ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے معاشی حالات کا جائزہ لیں تو یہ بات بھی درست نظر آتی ہے کہ یہاں اگر کرونا کی وجہ سے لوگ کام کرنا چھوڑ دیں تو بھوک سے مر جائیں گے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ماسک لگانا اور سوشل فاصلہ رکھنا مشکل کام ہے؟ کیا اس پر پیسہ خرچ ہوتا ہے؟ نہیں اور یہی میرا سوال ہے کہ عوام کو سنجیدگی کے ساتھ اس وائرس کو لینا چاہئے اور خود کو پاک صاف رکھتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو دھوتے رہ کر ماسک لگا کر اور سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے اپنی زندگی کے معاملات کو چاری رکھنا چاہئے۔
اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں ایسے موسم اور ایسے ماحول میں زندہ رکھا ہے کہ جہاں ہم اس بلا سے قدرے محفوظ ہیں۔ مگر احتیاط لازمی ہے اور ہمیں زندگی میں خود کو اپنے چاہنے والوں کو کسی بھی ناگہانی صورتحال سے محفوظ رکھنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاہئے اور ذمہ دار شہری کی طرح اپنی روزمرہ ذمہ داریوں کو حل کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اور ہمارے پیاروں کو اس وبا سے محفوظ فرمائے۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں