کیا الیکشن ہو رہے ہیں؟ 56

کوّا چلا ہنس کی چال

پاکستانی سیاست اس وقت اپنے بلیک میلنگ کی انتہا کو پہنچ چکی ہے اگر یہ کہا جائے کہ بلیک میلنگ بمقابلہ طاقت کے سی صورتحال پیدا ہو گئی ہے تو غلط نہ ہوگا جس کے مناظر ہمیں اس وقت سندھ کے نگران حکومت کے بدلتے ہوئے تیور کو دیکھنے کی صورت میں مل رہے ہیں کس طرح سے نگراں حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تگنی کا ناچ نچوانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے یہ ناچ الیکشن کمیشن آف پاکستان نہیں بلکہ وہ قوتیں ناچ رہی ہیں جو اس وقت پورے نظام کو چلا رہے ہیں اور اس سارے کھیل میں پاکستان پیپلزپارٹی پوری طرح سے جوبن میں آگئی ہے ایک عجیب و غریب کھیل شروع ہو گیا ہے اصل راج نیتی کے داﺅ پیج اب دیکھنے اور سمجھنے کو مل رہے ہیں اس سارے کھیل میں پیپلزپارٹی ہر لحاظ سے وننگ پوزیشن میں آگئی ہے، سکے کے دونوں رُخ ہی ان کے ہو گئے ہیں اس طرف بھی جیت اور اس طرف بھی جیت۔ جس طرح سے بدقسمت لوگ آگے کنواں اور پیچھے کھائی والی حالت میں آجاتے ہیں، اس طرح سے پی پی پی اب وننگ پوزیشن میں آچکی ہے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نگراں حکومت نے کبھی پالیسی سازوں کو آنکھیں دکھائی، یہ پہلا موقع ہے کہ نگراں حکومت نے حکومتی مشینری کے ردوبدل میں کسی اور کی مداخلت برداشت نہیں کی بلکہ اپنی من مانی کی دوسرے معنوں میں اگر اسے نئی بوتل اور پرانی شراب کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا، کہنے کو تو یہ نگراں حکومت ہے اور وہ شفاف الیکشن کروانے آئی ہے لیکن درحقیقت اس وقت بھی سندھ میں بالواسطہ یا پھر براہ راست طور پر پیپلزپارٹی ہی کی حکومت ہے اور اب بھی بالکل اسی طرح سے فریال تالپور صاحبہ اور خود مراد علی شاہ کے احکامات فرخ بشیر کی شکل میں جاری کروائے جارہے ہیں، جس طرح کے ایس ایس پی اور ڈی آئی جی کی پوسٹنگ کی اپرول الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جاری کئے ہیں اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے ٹرانسفر پوسٹنگ خود بلاول ہاﺅس کی مشاورت سے ہی کئے گئے ہیں، ساری پوسٹنگوں میں خادم رند اور فرخ بشیر کے پینل حاوی رہے انہوں نے ہی جسے جہاں لگوانا تھا وہ اس میں پوری طرح سے کامیاب ہو گئے اگر ابھی بھی کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ لمبی تان کر سو جائے اگر خدانخواستہ پی پی پی کے خلاف کسی طرح کی کوئی آپریشن بھی کیا جاتا ہے اور انہیں پابند سلاسل بھی کیا جاتا ہے تو اس میں بھی فائدہ پی پی پی کو اور نقصان آپریشن کرنے والوں کو پہنچے گا۔ پی پی پی مظلوم اور شیر بن جائے گی کیونکہ اس وقت آصف علی زرداری کا اصولی موقف آئین کے مطابق 90 روز میں انتخابات کروانے کا ہے جسے مسلم لیگ ن اور خود اسٹیبلشمنٹ ماننے کو تیار نہیں، وہ آئین کو پامال کرکے اپنے مرضی سے الیکشن کروانے پر بضد ہیں اسی وجہ سے تو کہتا ہوں کہ اس وقت آصف علی زرداری سیاسی لحاظ سے یہ معرکہ سر کر چکے ہیں ان کے سارے گناہ اور جرائم ان کے ایک اس اصولی آئینی موقف کو اپنانے پر ختم ہوگئے یا پھر پوری طرح سے بے اثر ہو گئے ہیں ایک طرح سے پی پی پی یعنی آصف زرداری نے بھی اپنا وزن تحریک انصاف یعنی عمران خان کے پلڑے میں ڈال دیا ان کا موقف بھی آئین کے مطابق الیکشن کروانے کا تھا، طریقہ کار دونوں کا الگ الگ ہے، مطالبہ ایک ہی ہے اور وہ ہے آئینی 90 روز میں الیکشن کروانے کا، اب کون کوے کی چال چل کر اپنی چال کو بھلوانے کی کوشش کررہا ہے اس پر مجھے کچھ کہنے یا پھر لکھنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
قارئین بہت ہی باشعور اور سمجھدار ہیں، وہ بغیر کچھ پڑھے ہی سمجھ گئے کہ میں ملک کی ڈوبتی ہوئی معیشت اور اس کو سہارہ دینے والے کاندھوں پر بات کررہا ہوں، جو جس کا کام وہ اسے کو ساجھے۔
پاکستان کی تباہی اور بربادی کی ایک سب سے بڑی وجہ جج کا تھانیدار بننا، سرجن کا قصائی بننا، صحافی کا سیاستدان بننا اور حجام کا پروفیسر بننا ہے اگر ہر کوئی اپنے ہی کام پر توجہ دے تو ملک کی ساری خرابیاں دور ہو جائیں گی، کاش کے ترے دل میں اُتر جائے مری بات۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں